ہرجندر
یہ بات گزشتہ سال 14اکتوبر کی ہے۔ کورونا وائرس انفیکشن کے تیزی سے پھیلاؤ اور اس کی وجہ سے مرنے والوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے فرانس نے طے کیا کہ وہ پیرس اور آس پاس کے علاقہ میں رات کا کرفیو لگائے گا۔ انفیکشن روکنے کا کام ڈھیلے ڈھالے لاک ڈاؤن کے حوالہ تھا، اس لیے لگا کہ رات کے کرفیو سے شاید کچھ بڑا حاصل کیا جاسکے گا۔ پیرس جس طرح کا شہر ہے اور مغربی ممالک میں جیسی تہذیب ہے، اس کے سبب یہ کرفیو بامعنی بھی لگ رہا تھا۔
وہاں لوگ دن بھر اپنے کام دھندوں میں مصروف رہتے ہیں، جب کہ شام کا وقت موج مستی اور تفریح کا ہوتا ہے، لوگ پارٹی کرتے ہیں، نائٹ کلب، بار، تھیٹر وغیرہ میں جاتے ہیں۔ ایسے مقامات پر بھاری بھیڑ بھی ہوتی ہے اور مسلسل رپورٹیں مل رہی تھیں کہ تھوڑی ہی دیر بعد وہاں نہ لوگوں کو ماسک لگانے کا خیال رہتا ہے اور نہ ہی سماجی دوری کا کوئی مطلب رہ جاتا ہے۔ کہا جارہا تھا کہ یہ مقامات کبھی بھی کورونا انفیکشن کے ’ہاٹ اسپاٹ‘ بن سکتے ہیں، یا شاید بن بھی چکے ہیں۔ ایسے میں، رات کا کرفیو دن بھر لگنے والی پابندی سے زیادہ بہتر تھا۔ تب تک یہ سمجھ میں آچکا تھا کہ دن بھر کی پابندیاں انفیکشن تو نہیں روکتیں، البتہ معیشت کو ضرور منہدم کردیتی ہیں۔ معیشت پہلے ہی بری حالت میں پہنچ چکی تھی، اس لیے رات کے کرفیو میں سمجھداری نظر آرہی تھی۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ رات کے کرفیو کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ ایسے کرفیو پوری دنیا میں لگتے رہے ہیں۔ دور کیوں جائیں، ہندوستان میں کشیدہ حالات میں کئی مقامات پر رات کا کرفیو لگایا جاتا رہا ہے۔ ایک وقت وہ تھا، جب آسٹریلیا میں رات کو ہونے والے جرائم کی وجہ سے وہاں رات کا کرفیو لگایا گیا تھا۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا، جب کسی وبا کو روکنے کے لیے رات کے کرفیو کا استعمال ہورہا تھا۔ جلد ہی فرانس میں اس میں ایک نئی چیز جوڑ دی گئی۔ جب رات کی مستی کو حکومت نے چھین لیا، تو پایا گیا کہ شام ڈھلے اپنے اپنے گھر میں بند ہوجانے والے لوگ ہفتہ-اتوار کی ہفتہ وار تعطیل کے دوران سمندر کے ساحلوں پر بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ وہاں بھی جب انفیکشن کے نئے ہاٹ اسپاٹ کا خدشہ نظر آیا تو ’ویکینڈ کرفیو‘ نافذ کردیا گیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ جس ’نائٹ لائف‘ کو کنٹرول کرنے کے لیے رات کے کرفیو کی شروعات ہوئی تھی، وہ طرززندگی تو ہندوستان میں سرے سے غائب ہے۔ لوگ جہاں رات کو بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، ایسے انعقاد ہندوستان میں بہت کم ہوتے ہیں۔ ایسا یا تو بڑی شادیوں میں ہوتا ہے یا پھر دیوی جاگرن جیسے انعقادوں میں، فی الحال ان دونوں ہی طرح کے بڑے انعقاد بند ہیں۔ اس لیے یہ بہت واضح نہیں ہورہا ہے کہ رات کے کرفیو سے وائرس پر نشانہ کیسے لگے گا؟
اس طرح کے سارے کرفیو کی تنقید بھی ہوئی اور انفیکشن روکنے میں وہ کتنا کارگر ہے، یہ بھی تنازع کے گھیرے میں رہا۔ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وائرس کو آپ حکومتی پابندیوں اور انتظامی سختی سے نہیں روک سکتے۔ جب پیرس کے بازار رات 9بجے بند ہونے لگے، تب پایا گیا کہ شام سات-آٹھ بجے کے آس پاس بازار میں بھیڑ اچانک بڑھنے لگ جاتی ہے۔ تب ایک ساتھ وبا کے پھیلاؤ اور معیشت کے Contractionسے نبردآزما دنیا کو فرانس کی اس کوشش میں امید کی ایک کرن نظر آئی۔ ایک کے بعد ایک کئی ممالک نے اسے اپنایا۔ رات کا کرفیو جلد ہی اٹلی، اسپین، برطانیہ اور جرمنی ہوتا ہوا امریکہ کے کئی شہروں تک پہنچ گیا۔
کورونا انفیکشن میں ہم ابھی تک یہی سمجھ سکے ہیں کہ اس کا گراف تیزی سے اوپر بڑھتا ہے اور ایک بلندی تک جانے کے بعد اتنی ہی تیزی سے نیچے آنے لگتا ہے۔ اس لیے ہم ٹھیک طرح سے یا پورے دعوے کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بعد میں اس انفیکشن پر جو مبینہ کنٹرول حاصل ہوا، وہ حقیقت میں تھا کیا؟ وہ ’ٹریس، ٹسٹ اینڈ آئسولیٹ‘، یعنی جانچ، رابطوں کی تلاش اور انہیں الگ تھلگ کرنے کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا یا اس احتیاط کا، جو دہشت کے اس دور میں لوگوں نے برتنی شروع کردی تھی؟ اسی طرح، یہ صحت خدمات کی سرگرمی کا نتیجہ تھا یا پھر اس کرفیو کا، جس کا مقصد تھا، ضرورت سے زیادہ لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے پر روک لگانا؟ ان کا جواب ہم ٹھیک سے نہیں جانتے، اس لیے تھوڑا کریڈٹ کرفیو کو بھی دیا ہی جانا چاہیے اور دیا بھی گیا۔ ٹھیک یہیں ہمارے سامنے ہندوستان میں نافذوہ 68دنوں کا لاک ڈاؤن بھی ہے، جسے دنیا کا سب سے سخت لاک ڈاؤن کہا جاتا ہے اور وہ انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے میں ناکام رہا تھا۔
اب جب کورونا وائرس نے ہندوستان پر پہلے سے بھی بڑا حملہ بولا ہے، تب رات کا کرفیو ہمارے ملک کے دروازے بھی کھٹکھٹا رہا ہے۔ اس نئے انفیکشن سے جب حکومتوں کی نیند کھلی ہے تو انہیں بھی رات کے کرفیو میں ہی واحد سہارا دکھائی دے رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کی طرح سے اس میں معاشی خطرات کم ہیں، اس لیے عدالتیں بھی اسی کی سفارش کررہی ہیں۔ رات کے کرفیو کے ساتھ ہی ’ویکینڈ لاک ڈاؤن‘ بھی ہندوستان پہنچ گیا ہے۔ مایوسی کے فرائض کی طرح ایک ایک کرکے ساری ریاستیں انہیں اپناتی جارہی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس ’نائٹ لائف‘ کو کنٹرول کرنے کے لیے رات کے کرفیو کی شروعات ہوئی تھی، وہ طرززندگی تو ہندوستان میں سرے سے غائب ہے۔ لوگ جہاں رات کو بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، ایسے انعقاد ہندوستان میں بہت کم ہوتے ہیں۔ ایسا یا تو بڑی شادیوں میں ہوتا ہے یا پھر دیوی جاگرن جیسے انعقادوں میں، فی الحال ان دونوں ہی طرح کے بڑے انعقاد بند ہیں۔ اس لیے یہ بہت واضح نہیں ہورہا ہے کہ رات کے کرفیو سے وائرس پر نشانہ کیسے لگے گا؟
ہمارے یہاں سیاسی ریلیوں اور میلوں جیسے کئی انعقاد زیادہ بڑے ہوتے ہیں، جن میں بھاری بھیڑ ہوتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ابھی تک ان کے ذریعہ انفیکشن پھیلنے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے، لیکن ان کے محفوظ ہونے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اس لیے بحران سے نمٹنے کے ہمیں اپنے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔ مغرب کی دوائیں بھلے ہی کام آجائیں، لیکن اس کے سماجی طریقے شاید ہمارے لیے اتنے کارگر نہیں ہوں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)