اے آزاد قاسمی
آج ہم جس ترقی یافتہ سماج میں جی رہے ہیں اور جس طرح سے جدید طرزحیات کو برت رہے ہیں، اس پس منظرمیں اگر یہ کہا جائے کہ نئی نسل کوجدید ٹیکنالوجی کی یہ رعنائیاں اورجدید ثقافتی چکاچوند ورثہ میں ملی ہے توقطعی غلط نہ ہوگا۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ انٹرنیٹ وغیرہ کے غیر اخلاقی اثرات اس سے الگ ہیں،جو بحث اور مطالعہ کا ایک الگ ہی موضوع ہوسکتے ہیں۔کسی بھی قوم کے عروج و زوال اور اس کی نشوونما میں سماجی ہم آہنگی، معاشرتی طرز زندگی، متوازن رہن سہن اورمنصفانہ معاشی تقسیم کابہت اہم رول ہوتا ہے۔ ملت کے نوجوانوںمیں معیاری تعلیم کا فقدان، اخلاقی تربیت سے محرومی،بے روزگاری، مادیت پرستی کی طرف بڑھتا رجحان، منفی سوچ اور غیرمناسب رہنمائی کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال نے ملت کے بہی خواہوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ انسانی مشاہدات کے ساتھ ساتھ دانشوران قوم کی تقریریں، تحریریں اور تجزیے یہ بتاتے ہیں کہ قوموں کے لیے اس کی نوجوان نسل ایک قیمتی اثاثہ ہی نہیں بلکہ ملک وملت کے لیے روشن اورپائیدار مستقبل کی امیدوں کا مرکز بھی ہواکرتی ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی اور کامیاب دنیاوی زندگی میں سربلندی کادارومدار اس قوم اورملک کی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے ساتھ اس کے بلندکردار اور اعلیٰ اخلاق پر ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری صفوںمیں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیںجو منفی انداز میں نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ ہر معاملہ میںخامی کا پہلوتلاش کرنا اور اس کی تشہیرکرناان کی سرشت میںشامل ہوتا ہے، ایسے لوگوں کا ذاتی مفاد کیا ہوسکتا ہے، اس کی نشاندہی تو نہیں کی جاسکتی، لیکن اس جدید دور میں جب ہم سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے ذرائع پر نظرڈالتے ہیں تو اس طرح کی چیزیں بڑی تعداد میں نظر آتی ہیںجن میں کسی تعمیری سوچ کا عنصر مفقود ہوتاہے۔
جمعیۃعلماء ہندکے کام کادائرہ بہت وسیع ہے، ملک کی دوسری ملی وسماجی تنظیموں کے مقابلہ جمعیۃعلماء ہند کا نیٹ ورک بہت مضبوط اورفعال ہے، اس کے کارکنان ریاست اور ضلعی سطح پر ہی نہیں بلاک اور گاؤں کی سطح پر بھی موجودہیں اور انہیںکے توسط سے یہ ملک کے ایسے دشوارگزار علاقوں میں بھی اپنی فلاحی سرگرمیاں چلارہی ہے جہاں تک عام حالات میں رسائی اب بھی بہت مشکل ہے۔
ادھرکچھ دنوں سے سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر ملی تنظیموں کے تعلق سے شدت کے ساتھ رپورٹیں آرہی ہیں جن میں اسی طرح کی منفی باتیں لکھی جارہی ہیں جن کا ذکر اوپر آچکاہے ، یہ بات بھی بہت ہی شدومدکے ساتھ پھیلائی جارہی ہے کہ جمعیۃعلماء ہند نے جو665اعلیٰ عصری تعلیم یافتہ نوجوانوں کو وظائف دینے کا اعلان کیا ہے، اس کی تفصیلات عام کرنے سے جمعیۃکی قیادت بچ رہی ہے۔یہ بھی مشتہرکیا جارہا ہے کہ ملی تنظیموں اور رفاہی اداروں کی طرف سے اس طرح کے اعلانات حقیقت سے دورہوتے ہیں۔ملک میں جو بھی ملی تنظیمیں سرگرم ہیں، ان میں ممکن ہے کچھ تنظیمیں کاغذوں تک محدودہوں لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ بیشتر تنظیمیں اپنی بساط بھر رفاہی وفلاحی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں، جہاں تک بات جمعیۃعلماء ہند کی ہے تووہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہے،پچھلے سوبرس سے وہ ملک وقوم کی جو خدمات انجام دے رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے، یہاں چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ جمعیۃعلماء ہند موجودہ صدرمولانا ارشدمدنی کی قیادت میں پچھلے کچھ عرصہ سے مختلف محاذ پرجو کارنامے یارفاہی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے، جمعیۃعلماء ہند نے نامساعد حالات میں بھی قوم و ملت کے لیے بے شمار کارہائے نمایاں انجام دیے ہیںاور اس کا یہ سفر خوب سے خوب ترکی طرف کامیابی وکامرانی کے ساتھ جاری ہے ، جس کی مختصرتفصیل یہاں سپرد قرطاس کی جارہی ہے، جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس جیسی ملی تنظیم کی مسلمانان ہند کو کیوں ضرورت ہے؟ جمعیۃعلماء ہند ایک تاریخ سازجماعت ہی نہیں بلکہ ایک مکمل اور روشن تاریخ کا نام ہے، اپنے سوسالہ دورمیں اس جماعت کے اکابرین نے ملک وملت کے لیے جو بیش بہا فلاحی اور رفاہی کام انجام دیے ہیں، وہ آب زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔ اگر آپ اس جماعت کے فلاحی کاموں کو کاغذ کے ایک صفحہ پرسمیٹنا چاہیں تویہ ناممکن ہے۔ جیساکہ اوپر کی سطورمیں آچکاہے کہ جمعیۃعلماء ہندکے کام کادائرہ بہت وسیع ہے، ملک کی دوسری ملی وسماجی تنظیموں کے مقابلہ جمعیۃعلماء ہند کا نیٹ ورک بہت مضبوط اورفعال ہے، اس کے کارکنان ریاست اور ضلعی سطح پر ہی نہیں بلاک اور گاؤں کی سطح پر بھی موجودہیں اور انہیںکے توسط سے یہ ملک کے ایسے دشوارگزار علاقوں میں بھی اپنی فلاحی سرگرمیاں چلارہی ہے جہاں تک عام حالات میں رسائی اب بھی بہت مشکل ہے، اگر ہم آسام کے کوکراجھار اور بوڈولینڈکی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں اکتوبر 2008 میں ہوئے بھیانک فسادکے متاثرین کے بچوں کوجن میں مسلم بچوں کے ساتھ ساتھ قبائلی بچے بھی شامل ہیں، کانوینٹ اسکول میں داخل کرکے ان کے لیے اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے۔ان بچوں کے رہنے، پڑھنے کے علاوہ تمام طرح کی ضروریات کا خرچ جمعیۃ برداشت کررہی ہے۔آگے چل کریہ بچے ان شاء اللہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوںگے، ان بچوں کی ٹیوشن فیس ہی سالانہ لاکھوں میں ادا کی جارہی ہے۔ اسی طرح 2011 میں بھرت پور قصبہ رام گڑھ راجستھان کے فسادمیں بیوہ ہوئی دس خواتین کو تاعمر دودو ہزارروپے بطوروظیفہ دیاجانا منظورکیا گیا تھا جو تاہنوزجاری ہے۔ دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ ملزمین کے اہل خانہ کوبھی جمعیۃکی طرف سے ان کے کیس کی پیروی کے ساتھ ساتھ ہر مہینہ پابندی سے پانچ پانچ ہزارروپے خانگی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیے جارہے ہیں، رمضان المبارک میں یہ رقم فی کس دوگنا کردی جاتی ہے۔ 2013 میں مظفرنگر فسادمیںبے گھرہوئے لوگوں کا جائزہ لیں تو حیرت سے دوچار ہونا پڑتاہے، ان بے گھرلوگوں کے لیے جمعیۃعلماء ہند نے جو کچھ کیا وہ امید سے کہیں زیادہ ہے۔ خامپور مظفرنگر، باغوانوالی مظفرنگر اور بڈھانہ مظفرنگر میں گاؤں سے متصل ایک قطعہ اراضی خرید کر جمعیۃکالونی بناکر ان بے سہارااورمجبورلوگوں کو بسایا گیا ہے، جس کی تصدیق کے لیے جمعیۃآفس جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کوئی بھی شخص موقع پر جاکر سچائی کا پتہ لگا سکتا ہے۔ اپریل 2010 میں گرادابی طوفان سے بے حال سیمانچل، مغربی بنگال میں آئلاطوفان سے بے گھر ہوئے متاثرین اور ابھی 2019 میں سیلاب سے متاثرہ کیرالہ و آندھراکے علاقوں میں پریشان حال لوگوں کی جمعیۃنے جس طرح مددکی اس کا احاطہ لفظوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ حالیہ دہلی فساد متاثرین کی بروقت دستگیری کے علاوہ ملک عزیز میںکوروناوائر س کے پھیلاؤ کے لیے موردالزام ٹھہرائے گئے تبلیغی جماعت سے متعلق منافرت اورجھوٹے پروپیگنڈہ کی بروقت بیخ کنی اور غیر ملکی تبلیغی افراد کی قانونی چارہ جوئی کے لیے زیریں عدالت سے لے کر عدالت عظمیٰ تک کامیاب پیروی کوہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ اس کا ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ یہ تمام طرح کے فلاحی کام بلالحاط مذہب وملت کرتی ہے۔
اکیسویں صدی کے ان ابتدائی عشروں میں ملت کوطرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے اور جس طرح وہ اپنے کو اب بے یارومددگارمحسوس کررہی ہے، شاید اس سے پہلے ملک عزیز میںاس طرح کے صبرآزما حالات سے اسے سابقہ نہیں پڑاہوگا۔ایک طرف جہاں ایک سال سے زیادہ عرصہ سے پورے ملک کے عوام ایک ناگہانی آفت سماویہ ’کورونا وائرس‘سے نبرزآزما ہیں تو دوسری طرف ملک میں پھیلے لاکھوں دین کے قلعے یعنی مدارس کی بقا کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ہمارے ملک میں مدارس اسلامیہ کامالی نظام مسلمانان ہند کی امدادپر منحصرہے۔ایسے موقع پر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے ملک کے تمام اردواخبارات میں ایک اشتہارشائع کرایا جس میں ان کی طرف سے کہاگیا کہ ’’مسلمانان ہند اس مصیبت کی گھڑی میں جمعیۃ کی امداد نہ کرکے ملک بھرمیں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کی بھرپور مددکریں‘‘، اب اگر اس کے بعد بھی جمعیۃعلماء ہند اپنی امدادی اور دیگر رفاہی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کا فضل ہی کہا جاسکتاہے۔ ملک کی فلاحی، سماجی اور ملی تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں مسلسل کام کررہی ہیں۔ہر ایک کے کام کرنے کا مزاج الگ ہے، ہر ایک کا دائرہ کاراورمیدان بھی الگ ہے، آج کل ملت اسلامیہ ہند کا متفقہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لاء بورڈبہت ہی سنجید گی کے ساتھ نکاح کو آسان بنانے کے لیے ایک مہم چلارہا ہے۔ اسی طرح امارت شرعیہ بہار میں اردوزبان کو اس کا جائز حق دینے اور ملت کے نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک منظم مہم چلارہی ہے، جس کے بہتر نتائج سامنے آبھی رہے ہیں،بالکلیہ یہ نہیں کہاجاسکتاکہ تمام کی تمام تنظیمیں قوم کی خدمت کے نام پر صرف دکھاوا کررہی ہیں۔ اس طرح کے نظریات ہمیں ایک دن اپنے اکابرین اور رہنماسے دورکرسکتے ہیں۔
[email protected]