آلوک جوشی
وزارت مالیات سے آیا اپریل فول کا جھٹکا تو واپس ہوگیا، لیکن یہ سوال فضا میں گھوم رہا ہے کہ این ایس سی، پی پی ایف اور دیگر چھوٹی بچت اسکیموں پر شرح سود آگے بھی برقرار رہے گی یا موجودہ اسمبلی انتخابات کے ختم ہونے کے بعد یعنی اگلی سہ ماہی میں کٹوتی ہوگی؟ کہا گیا ہے کہ وزارت مالیات سے شرح سود کم کرنے کا جو حکم جاری ہوا، وہ بھول سے جاری ہوگیا تھا۔ یہ بتانے کے لیے وزیرمالیات نے انگریزی میں ایک لفظ استعمال کیا، ’اوورسائٹ‘۔ لغت میں اس کے کئی معنی ہیں۔ پہلا اور مقبول معنی تو ہے نگرانی یا نظر رکھنا۔ سابق سینٹرل سکریٹری انل سوروپ نے اپنے ٹوئٹ میں چٹکی بھی لی کہ اگر ’اوورسائٹ‘ استعمال کی جارہی ہوتی تو شاید یہ ’اوورسائٹ‘ نہ ہوتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کام کاج پر کسی کی نظر ہوتی تو ایسی غلطی نہیں ہوتی۔ لغت میں اوورسائٹ کا دوسرا معنی غلطی ہی ہے۔
ظاہر ہے وزیرمالیات یہی کہنا چاہتی ہیں کہ شرح سود میں کٹوتی کا حکم غلطی سے جاری ہوگیا۔ لیکن معیشت اور سیاست پر باریک نظر رکھنے والوں کی رائے ہے کہ حکم واپس بھلے ہی ہوگیا، لیکن اس کا جاری ہونا کوئی غلطی نہیں، بلکہ وقت کی ضرورت تھی۔ کچھ ماہرین معاشیات کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ شرحوں میں کٹوتی واپس لینے کا فیصلہ ہی حکومت کی غلطی ہے۔
لیکن اس قصہ پر چلنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر یہ حکم واپس ہوا کیوں؟ یہاں ایک اہم اعدادوشمار دیکھنا پڑے گا۔ پورے ملک میں کس کس ریاست کے لوگ چھوٹی بچت اسکیموں میں کتنا پیسہ جمع کرتے ہیں؟ اس کے ایک دم تازہ اعدادوشمار تو ابھی سامنے نہیں ہیں، لیکن نیشنل سیونگس انسٹی ٹیوٹ نے 2017-18تک کے اعدادوشمار جاری کیے ہیں۔ ان کے مطابق، ان اسکیموں میں سب سے زیادہ پیسہ بنگال سے جمع ہوتا ہے، پورے ملک کے مقابلہ اس کی حصہ داری 15فیصد سے اوپر ہے۔ اور جن چار ریاستوں اور ایک یونین ٹیریٹری میں ابھی اسمبلی الیکشن ہورہے ہیں، وہ سب مل کر ان اسکیموں میں تقریباً ایک چوتھائی پیسہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے پیسہ جمع کرنے والے یہ سارے کنبے سود میں کٹوتی سے ناراض ہوسکتے تھے۔ کوئی بھی حکومت عین انتخاب کے دن اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے والا ایسا فیصلہ جانتے بوجھتے تو کرے گی نہیں۔
2008کے معاشی بحران کے وقت ہندوستان دنیا کے سامنے مضبوطی سے کھڑا رہا، اس کا بہت بڑا کریڈٹ چھوٹی بچت اسکیموں کو جاتا ہے۔ شرح سود کم ہونے کے پیچھے تمام دلیلیں ہوسکتی ہیں لیکن عام آدمی کے پیسے کی حفاظت کا کیا انتظام ہورہا ہے، اس کا بھی جواب حکومت کی طرف سے آنا چاہیے۔
مگر فائنانشیل سسٹم پر نظر رکھنے والوں کی دلیل ہے کہ پوری دنیا میں سود کی شرحیں کم ہورہی ہیں۔ قرض بھی سستا ہورہا ہے اور بینکوں کی جمع رقم پر بھی سود کی شرحیں کافی کم ہوچکی ہیں۔ امریکہ میں صفر فیصد، تو جرمنی میں سود لینے کے بجائے الٹے سود دینے کا سسٹم، یعنی ’نگیٹو انٹریسٹ ریٹ‘ ہوگیا ہے۔ حکومت ہند بھی بانڈ جاری کرکے جو قرض لے رہی ہے، اس پر شرح سود کافی کم ہوچکی ہیں۔ ایسے میں چھوٹی بچت اسکیموں کا سود کم نہیں کیا گیا تو اس کے دو خطرے ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگ بینکوں سے پیسہ نکال کر اس طرف کھسکنا شروع کرسکتے ہیں جو بینکوں کے لیے مہلک ہوسکتا ہے۔ اگر انہیں ڈپازٹ کم ملیں گے تو پھر وہ لون کیسے دیں گے؟ چاروں جانب کم ہوتی شرح سود کے درمیان ملک کی سب سے بڑی ہاؤسنگ فائنانس کمپنی ایچ ڈی ایف سی نے اپنے فکسڈ ڈپازٹ پر شرح سود چوتھائی فیصد بڑھانے کا اعلان کردیا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یا تو کمپنی کے پاس ڈپازٹ کم ہورہے ہیں یا پھر اس کے پاس قرض کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہونے لگا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے اسے مزید رقم چاہیے۔
حکومت کا خزانہ اور حساب کتاب دیکھنے والے افسران کی دوسری بڑی فکر یہ ہے کہ اگر چھوٹی بچت اسکیموں کا سود کم نہیں کیا گیا تو اس سے سرکاری خزانہ پر ہی بوجھ بڑھے گا، کیوں کہ اس سود کی ادائیگی تو حکومت کو ہی کرنی ہوتی ہے۔ ابھی حکومت کے خزانہ پر دباؤ جاری ہے اور کورونا کے تازہ حملہ کی وجہ سے معاشی حالت میں سدھار پر پھر بریک لگنے کا ڈر بڑھ رہا ہے۔ اس حالت میں کہیں سے بھی خرچ میں اضافہ کرنے والا کوئی بھی کام کرنا سمجھداری نہیں سمجھا جائے گا۔ یہ ماننے کا کوئی سبب نہیں ہے کہ وزارت مالیات کے افسران نے یہ سب سوچ سمجھ کر ہی چھوٹی بچت پر سود کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی لیے یہ خدشہ لاحق ہے کہ جیسے ہی سیاست کا دباؤ کم ہوگا، اکنامک لاجک حاوی ہوگا اور یہ فیصلہ واپس آجائے گا۔
معاشی لبرلائزیشن اور نئی معاشیات کے پیروکار بھی کہتے رہے ہیں کہ عوام کا پیسہ راست یا میوچول فنڈ اسکیموں کے ذریعہ شیئر بازار میں جائے گا، تبھی معیشت پوری رفتار پکڑے گی۔ موٹے طور پر یہ ماہرین چھوٹی بچت اسکیموں میں بڑی رقم جمع ہونے کو اچھا نہیں مانتے۔ لیکن حکومت کو اور اس دلیل کے حامیوں کو کچھ سوالات کے جواب بھی دینے چاہیے۔ چھوٹی بچت کی زیادہ تر اسکیموں میں جمع ہونے والا پیسہ کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 15سال کے لیے لاک رہتا ہے۔ یعنی حکومت لمبی ضرورتوں کے لیے اس پیسے کا استعمال کرسکتی ہے۔ وہ اسے صحیح جگہ لگاکر اس پر بہتر ریٹرن بھی دلاسکتی ہے۔ آخر1986سے 2000تک پی پی ایف پر 12فیصدی کا سالانہ سود ملتا رہا۔ حالاں کہ اس کے بعد سے ہی اس میں کمی کا سلسلہ چل رہا ہے۔ صرف سابقہ حکومت کے دوران دو مرتبہ اس میں ہلکا اضافہ ہوا۔
بہرحال ان اسکیموں کی شروعات اس لیے کی گئی تھی، تاکہ عوام میں بچت کی عادت ڈالی جاسکے، ان کا پیسہ محفوظ ہاتھوں میں رہے اور حکومت کو ترقیاتی اسکیموں کے لیے پیسے مل سکیں۔ اسکیموں کی کامیابی کا ثبوت ہے کہ پورے ملک میں گھریلو بچت کا 80فیصد سے بھی زیادہ حصہ انہی اسکیموں میں جاتا ہے۔ 2008کے معاشی بحران کے وقت ہندوستان دنیا کے سامنے مضبوطی سے کھڑا رہا، اس کا بہت بڑا کریڈٹ چھوٹی بچت اسکیموں کو جاتا ہے۔ شرح سود کم ہونے کے پیچھے تمام دلیلیں ہوسکتی ہیں لیکن عام آدمی کے پیسے کی حفاظت کا کیا انتظام ہورہا ہے، اس کا بھی جواب حکومت کی طرف سے آنا چاہیے۔ بالخصوص یہ دیکھتے ہوئے کہ آنے والے وقت میں نوکریوں پر خطرے کی تلوار لٹکی ہی رہنے والی ہے۔ ایسے میں لوگوں میں بچت کی عادت کو بڑھاوا دینا حکومت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)