ڈاکٹر محمد اجمل
کوئی بھی ملک خواہ کہیں بھی واقع ہو، اس کا جغرافیہ کیسا بھی ہو، اس کی ترقی اور فروغ ہر دو جانب سے اچھے تعلقات میں ہی مضمر ہے۔ جہاں تک بات ہے مستحکم ہند-پاک تعلقات کی تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ 1947 سے جاری ہے اور وہ ایک سے زیادہ جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ ان جنگوں میں دونوں ملکوں کو بھاری جانی ومالی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ اس کے باوجود ایٹمی طاقت سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعات آج بھی حل طلب ہیں۔ ان تنازعات میں کشمیر تنازع کی بڑی اہمیت ہے۔ جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول اپنے قیام سے ہی شہ سرخیوں میں رہی ہے۔ اس سے متعلق اکثر و بیشترناخوشگوار خبریں ہی سننے اورپڑھنے کو ملتی رہی ہیں، کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کی افواج اس مقام پر ایک دوسرے کو نشانہ بناتی آئی ہیں جس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر شہری اور فوجی ہلاکتیں معمول کی باتوں میں شامل رہی ہیں۔
دونوں ہمسایوں کے درمیان حالیہ برسوں میں تو کافی کشیدگی رہی ہے لیکن گزشتہ ماہ فروری 2021 میں نئی دلی اور اسلام آباد کے درمیان ایک نئی پیش رفت نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اچانک یہ خبر منظر عام پر آ گئی کہ ہندوستان اور پاکستان کے فوجی حکام نے لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر اس جنگ بندی معاہدے پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے پر اتفاق کر لیا ہے جس کا اعلان 2003 میں ہوا تھا مگر کبھی نیک نیتی سے اس پر عمل نہیں ہوا۔ یہ خبر خاص طور پر لائن آف کنٹرول کے نزدیک بسنے والی آبادیوں کے لیے کسی نوید سے کم نہیں تھی جو سرحدی کشیدگی کا اولین شکار بنتے آئے ہیں۔ ہند-پاک نے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دونوں اس طرح ایک جھٹکے میں آپسی کشیدگی ختم کر دیں گے لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اس میں دونوں طرف کے اعلیٰ حکام کے درمیان گفت و شنید میں تین ماہ صرف ہوئے ہیں تب کہیں جاکر دونوں کسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس خفیہ سفارت کاری میں ہند و پاک کے قومی سلامتی مشیروں کی سطح تک بات چیت ہوئی ہے۔
یوں تو پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کے بارے میں اگر چہ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا رہا ہے، تاہم مبصرین پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کے اس بیان کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں جو انہوں نے کچھ روز قبل دیا تھا اور جس کی بنیاد پر باور کیا جاتا ہے کہ ہند-پاک کے مابین ہوئی حالیہ پیش رفت کو پاکستانی فوج کی مکمل حمایت اور تائید حاصل ہے۔ باجوہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان باہمی احترام اور پرامن بقائے باہمی اور تعاون پر کاربند ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام شعبوں میں امن کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ حالانکہ اس سے قبل پاک وزیر اعظم عمران خان نے بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے بیانات دے کر دونوں ملکوں کے عوام کی امیدوں کو جگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ امن کے بغیر معاشی خوشحالی برقرار نہیں رہ سکتی۔ عمران نے کہا تھا کہ خطے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بھی قومی سلامتی کے لیے اہم ہیں اور اس میں شبہ نہیں کہ جب تک کسی خطے میں امن قائم نہیں ہوتا، کوئی بھی ملک اپنے جیو اسٹرٹیجک مقام کا پورا فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔
تجزیہ نگار نئی دلی اور اسلام آباد کے مابین رشتوں کی نئی بحالی اور اس سلسلے میں ہوئی پیش رفت کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ایسا کرنے کے لیے دونوں کو اپنی اپنی اسٹرٹیجک پوزیشنس کو کافی حد تک پس پشت ڈالنا پڑا ہے۔ اسلام آباد کا مؤقف تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ تب تک کوئی معاہدہ یا کسی قسم کی گفت و شنید نہیں کرے گا جب تک نئی دلی 5 اگست 2019 کے فیصلے کو واپس نہیں لے گا۔ دوسری جانب نئی دلی نے سخت مؤقف ظاہر کرتے ہوئے پاک مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کا اعلان باضابطہ پارلیمنٹ کے اندر کیا تھا۔ حالانکہ ہند و پاک کے مابین کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا ہے بلکہ پرانے معاہدے کی پاسداری کا اعلان ہوا ہے جو دونوں کی باہمی کوششوں کا نتیجہ ہے مگر یہ بھی نیک فال ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان رابطہ اور پھر اس کے نتیجے میں ایک مشترکہ اعلان اس وقت ہوا ہے جب اسلام آباد ہر بین الاقوامی فورم پر ہندوستان پر شدید نوعیت کے الزمات عائد کر رہا تھا۔ وہ اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم، پاکستان کی عمران خان کی سربراہی والی حکومت کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھی۔ پاکستان کی اس ہند مخالف سفارتی مہم میں 2019 کے بعد سے شدت آئی تھی جب جموں و کشمیر ریاست کی خصوصی پوزیشن چھین لی گئی تھی اور اس کو تقسیم کر کے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اصل میں پاکستان کی اس مہم کا آغاز اگست 2019 کے فیصلے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر سے ہوا۔ اس مہم کو توڑنے کے لیے نئی دہلی نے بھی سفارتی محاذ پر سرگرمی شروع کی اور دونوں طرف کی مہم اب باضابطہ جنگ کی طرز پر جاری تھی۔ اس دوران امریکہ میں ڈونالڈٹرمپ کو شکست ہوئی اور جو بائیڈن نے نئے امریکی صدر کی حیثیت سے کام سنبھالا۔ اسی اثنا میں ہندوستان اور چین کے مابین بھی پینگونگ معاہدہ عمل میں آیا جس نے مقامی حالات میں ایک نئی تبدیلی پیدا کی۔ مبصرین کے مطابق، اسی نئی تبدیلی کے زیر اثر ہند و پاک کی افواج کا مشترکہ اعلان ہوا۔اس پر بے شک کم و بیش گزشتہ برس کے ماہ دسمبر سے خفیہ طور پرکام ہورہا تھا اور جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ بیجنگ نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ہند-پاک مشترکہ اعلان سے جو لوگ سب سے زیادہ مطمئن ہوئے ہیں، وہ لائن آف کنٹرول کے نزدیک رہائش پذیر لوگ ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے 3 برس کے دوران دونوں جانب کی افواج کی فائرنگ میں لائن آف کنٹرول کے نزدیک رہنے والے 70 افراد ہلاک اور 341 زخمی ہوئے ہیں، اس لیے لائن آف کنٹرول کے نزدیک رہائش پذیردونوں طرف کے لوگ ہندوستان اور پاکستان کے مابین صلح کے سوا کچھ اور نہیں چاہتے ہیں تاکہ وہ سکون سے زندگیاں گزار سکیں اور انہیں کسی طرف کے گولے کی زد میں آ نے کا ڈر نہ رہے۔ پھر کشمیر کے جملہ عوام ہیں جن میں دونوں ممالک کے مابین رشتوں کی بحالی سے نئی امیدیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہاں کے عوامی حلقوں کا ماننا ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آ باد شایدآخر کار اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ ٹکراؤ کی صورتحال سے تنازع کی شدت میں اضافے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو،تا، اس لیے افہام و تفہیم ہی ایک ایسی راہ ہے جس پر چل کر دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات حاصل کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عام لوگوں کا تحفظ بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔ اقتصادی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے توتعلقات کی استواری سے وسطی ایشیا تک ہندوستان کی رسائی آسان ہو جائے گی اور اس سے پاکستان کو بھی حیرت انگیز تجارتی فائدے ہو سکتے ہیں۔ بعض مبصرین ہندوستان اور پاکستان کے مابین عمل میں لائے گئے ماضی کے معاہدوں اور ان کی غیر پاسداری کی روایت کی بنیاد پر خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر حالیہ مشترکہ اعلان کے پیچھے کارفرما قوتوں نے ڈھیلا پن دکھایا تو جنگ بندی معاہدہ ایک بار پھر بے معنی ہو سکتا ہے جس کی خلاف ورزیوں کی باتیں دونوں ممالک کرتے رہے ہیں۔
(مضمون نگار جے این یو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
[email protected]