ایشیا اور بحرالکاہل خطہ کیلئے اقوام متحدہ اقتصادی و سماجی کمیشن (یو این ای ایس سی اے پی)کی تازہ رپورٹ نے ملکی معیشت کے خوش رنگ نقاب کو نوچ کر پھینک دیا ہے ۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کیلئے ویکسی نیشن مہم کے باوجود 2021میں ہندوستان کی کل گھریلو پیدوار (جی ڈی پی)2019کی سطح سے بھی نیچے رہے گی۔ 2021-22میں ہندوستان کی معاشی نمو کی شرح 7 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ رواں مالی سال میں کورونا وبا اورکاروباری سرگرمیوں پراس کے اثرات کی وجہ سے شرح نمو میں7.7فیصد سے زیادہ کمی کا خدشہ ظاہر کیاگیا ہے ۔یہ چشم کشا رپورٹ وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن کے حالیہ دنوں کیے گئے اس دعویٰ کے قطعی برخلاف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی ایسی معیشت بن چکا ہے جس کی جانب دوسرے ممالک امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔تمام تر منفی قیاسات اور اندازوں کو مات دیتے ہوئے ہم نے معاشی میدان میں جو اصلاحات کی ہیں اس کے ثمرات آنے شروع ہوگئے ہیں اور کوئی دن جاتا ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کی فہرست میں اپنی جگہ بنالیں گے ۔ وزیرخزانہ کے اس دعویٰ کویو این ای ایس سی اے پی کی سروے رپورٹ نے ریت کا گھروندہ ثابت کردیا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کورونا وبا کے آغاز کے قبل سے ہی ہندوستان کی جی ڈی پی اور سرمایہ کاری میں کمی آچکی تھی۔ گزشتہ سال کے اوائل میں چین سے اٹھنے والی کورونا وبا کی لہر نے دنیا بھر کی بوسیدہ معیشتوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی معیشت کا بھی رنگ وروغن کھرچ ڈالا اور ایسی سفاک حقیقت ہمارے سامنے آئی جس نے ہماری تمام خوش گمانیوں اور 5کھرب امریکی ڈالر کی معیشت کا خواب چکناچور کردیا ۔کورونا وائرس سے بچائو اوراس کے دائرہ کو توڑنے کیلئے جو اقدامات کیے گئے اس میں بھی انتہاپسندانہ رویہ نے معیشت کے زوال میںا پنا حصہ ڈالا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کیلئے لگایاجا نے والا لاک ڈاؤن دنیا میں سب سے سخت ’لاک ڈاؤن‘ تھا ۔جس نے معیشت کوتو خطرناک حد تک نقصان پہنچایا ہی اس لاک ڈائون کی وجہ سے ہندوستانی شہریوں میں نفسیاتی گرہ اور الجھن بھی پیدا ہوگئی جو اب تک لاینحل ہے ۔2020کی دوسری سہ ماہی یعنی اپریل تا جون میں معاشی رکاوٹیں اپنے عر وج پر تھیں۔ کاروبار زندگی ٹھپ، کل کارخانوں کی بندی اور گردش زر میں کمی جیسے معاملات نے تمام معاشی تخمینوں کو الٹ پلٹ دیا۔ اسی سال کی تیسری سہ ماہی جولائی اور ستمبر کے درمیان لاک ڈائون میں نرمی اور وائرس کی منتقلی کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے معاشی بحالی کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن یہ امید بر نہیں آئی اور چوتھی سہ ماہی میں مجموعی گھریلو پیداوارصفر سے بھی نیچے چلی گئی ۔
اب جب کہ کورونا وائرس کا زور پہلے کی بہ نسبت کم ہے اور ٹیکہ کاری کا بھی آغاز ہوگیاہے، اس کے باو جود2021میں ملکی پیداوار کے کم ترین سطح پر رہنے کا خدشہ یہ بتارہاہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومتی کوششیں ثمر آور نہیں ہوئی ہیں، اس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا ہوگا۔ اس دوران سب سے بڑا چیلنج حکومتی اخراجات کو قابو میں رکھنا اور نن پرفارمنگ اسیٹ یعنی وصول نہ ہونے والے قرضوں کاحجم کم کرنا ہے،جس کی بابت ہمیں کوئی خوش گمانی نہیں ہے کہ حکومت یہ کام کرپائے گی۔ ان لاک شروع ہونے کے ساتھ ہی اخراجات کم کرنے کے بجائے مختلف غیر ضروری مدات میں بھاری بھرکم اخراجات کیے گئے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک بحران اور روزگار کے سخت ترین مسائل سے دوچار تھا حکومت نے اپنی آن بان اور شان کیلئے ساڑھے آٹھ ہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم سے دو طیارے خریدے ۔اسی طرح دوسری کئی غیر ضروری مدات ہیں جن میں کٹوتی کی جاسکتی ہے لیکن بجائے اس کے حکومت روزبروز ان اخراجات کا بوجھ بڑھارہی ہے ۔خرچے پورے کرنے کیلئے نئے وسائل تیار کرنے کے بجائے قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے ۔ ہندوستان کے برخلاف چین جہاں سے کورونا وبا کا آغاز ہوا اس نے اپنی حکمت عملی، فوری اور موثر اقدامات کے ذریعہ نہ صرف اپنا خسارہ پورا کیا بلکہ 2020میں ترقی کی مثبت شرح حاصل کرکے دنیا کی واحد بڑی معیشت بننے کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔2020کی چوتھی سہ ماہی میں چین کی معاشی شرح نمو6.5فیصد تھی جو کورونا وائر س کی وبا سے قبل کی شرح نمو سے بھی زیادہ ہے ۔زمینی حقائق سے آنکھیں چراکر بلند بانگ دعوے کرنے سے نہ تو کوئی ملک ترقی کرسکتا ہے اور نہ زمانہ کے ساتھ قدم ملا سکتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سیاسی طالع آزمائی اور انتخابات کی جیت ہار کو تھوڑی دیر کیلئے پرے رکھیں اور خوش گمانی کے سحر سے آزاد ہو کر میدان عمل میں آئیں ۔ ملکی معیشت کایہ زوال حکمت عملی پر نظرثانی اور ہماری مکمل نیک نیتی کامتقاضی ہے۔
[email protected]
ہندوستان کی شرح نمو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS