یوگیندر یادو
کسان تحریک کے پہلے 100دنوں میں کسان نے اپنے آپ کو ملک، معاشرہ اور خود اپنی نظر میں دوبارہ قائم کیا ہے۔ اس نے معاشرہ سے کھوئی ہوئی عزت حاصل کی اور حکومت کو اپنا عزم و حوصلہ دکھایا۔ بیس سال بعد یہ تاریخی تحریک کچھ قوانین کو رکوانے اور زیادہ ایم ایس پی حاصل کرنے جیسے فوری فائدہ کے لیے نہیں بلکہ ملک کے سائک بورڈ(Psyche board) پر کسان کی واپسی کے لیے یاد کیا جائے گی۔
کسان تحریک اس سوال کے ساتھ پھر موضوع بحث ہے کہ تحریک نے 100دنوں میں کیا حاصل کیا؟ اس کے پیچھے سوال کم اور طنز زیادہ تھا۔ چینلوں نے تلاش کرکے دہلی کے مورچوں میں کسانوں کی کم ہوتی تعداد کے دعوے کیے، تین قوانین ابھی بھی رد نہ ہونے کا حوالہ دیا۔ ان کی زبان میں ’نو دن میں چلے اڑھائی کوس‘ والی آواز تھی۔ اس سوال کے کسان تحریک کی جانب سے کئی جواب دیے گئے۔ جواب تھا کہ آپ دہلی کے مورچوں کی تعداد کیوں گنتے ہیں؟ ہر روز ہورہی وشال مہاپنچایت کی تعداد گن کر دیکھئے۔ جو کسان دہلی کی سردی جھیل سکتے ہیں ان کے لیے گرمی جھیلنا بڑی بات نہیں ہے۔ کٹائی کے موسم میں مورچہ پر بیٹھے کسانوں کی ذمہ داری باقی گاؤں والے لے رہے ہیں۔ جیسے کسان اپنے کھیت کی فصل کاٹیں گے اسی طرح ہوئی تحریک کی فصل کو بھی کاٹ کر کامیابی کے بعد ہی اٹھیں گے۔
کوئی پوچھے گا: ان تین قوانین کو رد کرنے میں کامیابی کب ملے گی؟ اگر سپریم کورٹ اسٹے آرڈر ہٹا دے تو کیا ہوگا؟ سچ یہ ہے کہ کسان تحریک اس میں بھی کامیاب ہوچکی ہے، بس رسم باقی ہے۔ تین قوانین بے ہوش ہی نہیں ہیں، کوما میں پڑے ہیں، بس موت کا اعلان ٹالا جارہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس حکومت کیا مستقبل میں آنے والی کسی بھی حکومت کی ہمت نہیں ہوگی کہ ان قوانین یا ایسے ہی کسی کسان مخالف قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ قانون تو مرچکے ہیں، بس ڈیتھ سرٹیفکیٹ لینا باقی ہے۔
لیکن یہ کمزور جواب ہیں، چوں کہ یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ کسان تحریک کی کامیابی مستقبل کے شکم میں چھپی ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ تاریخی کسان تحریک ایک نہیں تین تاریخی کامیابیاں حاصل کرچکی ہے۔
پہلی ثقافتی کامیابی یہ ہے کہ اس تحریک نے کسان کی کھوئی ہوئی عزت لوٹائی ہے۔ جو کسان خود کو کسان کہنے میں شرماتے تھے، وہ سر اٹھاکر نعرے لگاتے ہیں، ’کون بناتا ہندوستان، بھارت کا مزدور کسان‘۔ کھیتی سے دور بھاگنے والے کسانوں کے بچے آج ’آئی لو فارمر‘ کا اسٹیکر لگاکر گھوم رہے ہیں۔ اس تحریک کی خاص حصولیابی کھیتی میں 70فیصد محنت کرنے والی خاتون کسان کو صرف دیہی خاتون نہیں بلکہ خاتون کسان کے طور پر قبول کرنا ہے۔ پہلے 19جنوری کو اور پھر 8مارچ کو ہر دھرنے، ریلی یا محاذ پر خاتون کسانوں کی بے مثال شراکت داری خاتون تحریک اور کسان تحریک دونوں کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوگی۔ جن کسانوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا گیا تھا، آج وہ ہمارے سامنے کھڑے ہیں حال اور مستقبل کا حصہ بن کر۔
دوسری کامیابی سیاسی ہے۔ اس تحریک نے ہر لیڈر اور پارٹی کو سبق سکھایا کہ کسان سے پنگا بھاری پڑسکتا ہے۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کے نتائج چاہے جو ہوں، بی جے پی جانتی ہے کہ کسان تحریک کے سبب اسے فائدہ نہیں نقصان ہی ہوا ہے۔ پارٹی کے کسان مخالف ہونے کی شبیہ پورے ملک میں پھیل رہی ہے، اس کے لیڈروں کو گاؤں میں گھسنے نہیں دیا جارہا۔ وزیراعظم چاہے تین قوانین کو رد کرنے کو ذاتی ساکھ کا سوال بنا بیٹھے ہیں، وہ بھی ہر دوسرے دن اس کا جواب دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ کسان کے سر پر تین قوانین لاد دینا ان کے لیے خسارہ کا سودا رہا ہے۔ حکمراں جماعت ہی نہیں، اپوزیشن کو بھی نصیحت مل گئی ہے۔ کم سے کم کچھ سال تک اپوزیشن ریاستی حکومتیں اور مستقبل میں مرکز میں بننے والی کوئی حکومت بھی کسانوں سے چھیڑچھاڑ کرنے سے گریز کرے گی۔
تیسری سماجی کامیابی سب سے بڑی ہے۔ تحریک نے ملک کے کسانوں کو ایک ہونا سکھا دیا ہے۔ حکومت کے تمام تگڑموں کے باوجود متحدہ کسان محاذ کے بینر تلے آئیں تقریباً 400 تنظیموں میں سے ایک بھی نہیں ٹوٹی۔ کسانوں کو علاقہ، زبان، مذہب و ذات کی بنیاد پر توڑنے کی ہر سازش ناکام رہی۔ پنجاب و ہریانہ کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی کوششوں کے باوجود دونوں کسان ساتھ لڑرہے ہیں۔ اترپردیش میں مظفرنگر فسادات کے بعد ہندو-مسلمان کے مابین کھڑی کی گئی دیوار تحریک سے زمیں بوس ہوگئی ہے۔ راجستھان کے مینا و گوجر سماج آپسی اختلافات/ ناراضگی فراموش کرکے کسان مہا پنچایت میں مصروف ہیں۔ پنجاب و ہریانہ کے گاوؤں سے خبر ہے کہ فوج داری کے مقدمے کم ہوگئے ہیں۔ کسانوں کا تاریخی اتحاد ان طاقتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، جن کی دکان کسانوں کو تقسیم کرکے راج کرنے پر ٹکی ہے۔
اس سب کے بعد بھی کوئی پوچھے گا: ان تین قوانین کو رد کرنے میں کامیابی کب ملے گی؟ اگر سپریم کورٹ اسٹے آرڈر ہٹا دے تو کیا ہوگا؟ سچ یہ ہے کہ کسان تحریک اس میں بھی کامیاب ہوچکی ہے، بس رسم باقی ہے۔ تین قوانین بے ہوش ہی نہیں ہیں، کوما میں پڑے ہیں، بس موت کا اعلان ٹالا جارہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس حکومت کیا مستقبل میں آنے والی کسی بھی حکومت کی ہمت نہیں ہوگی کہ ان قوانین یا ایسے ہی کسی کسان مخالف قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ قانون تو مرچکے ہیں، بس ڈیتھ سرٹیفکیٹ لینا باقی ہے۔ امید ہے کہ حکومت کی ہٹ دھرمی محض اس رسم کے لیے کسانوں کو ایک اور سنچری بنانے پر مجبور نہیں کرے گی۔
(مضمون نگار سیفولاجسٹ اور سوراج انڈیا کے صدر ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)