ونیت نارائن
مغربی بنگال کے انتخابات سر پر ہیں، سیاسی سرگرمیاں زور پکڑنے لگی ہیں۔سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر بدعنوانی کا الزام لگاکر عوام کے درمیان ایک دوسرے کی امیج خراب کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاست میں امیج کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، ایک بار جو امیج بن جائے اسے بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ انتخابات کسی بھی ریاست میں ہوں یا پھر لوک سبھا کے انتخابات ہوں۔ ہر پارٹی اپنے مخالفین پر بدعنوانی کا الزام لگاتی ہے اور خوب شور مچاتی ہے، لیکن اس سے نکلتا کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ تو بدعنوان ، سیاسی سسٹم میں اصلاح ہوتی ہے اور نہ ہی ملک کے عوام کو راحت ملتی ہے۔
در اصل سیاست سے وابستہ کوئی بھی آدمی نہیں چاہتا کہ کسی بھی اسکینڈل کی ایمانداری سے جانچ ہو اور قصورواروں کو سزا ملے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آج جو الزام ان کے مخالفین پر لگ رہا ہے کل وہ ان پر بھی لگ سکتا ہے۔ ہر پارٹی کی یہی منشا ہوتی ہے کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کی بدعنوانی کے معاملوں کو عوام کے درمیان اچھال کر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرلے اس عمل میں بیوقوف عوام ہی بنتے ہیں۔ آج اخلاقیات پر شور مچانے والی ہر پارٹی سے پوچھنا چاہیے کہ جس معاملے میں ثبوت نہیں کے برابر ہیں اس پر تو آپ کتنے جوشیلے ہیں، لیکن جس جین حوالہ اسکینڈل میں ہزاروں ثبوت موجود تھے اس کی جانچ کی مانگ کے نام پر ہر پارٹی کیوں خاموش رہی؟آپ کو بدعنوانی پر شورمچانے کی حقیقت خود بخود معلوم ہوجائے گی۔
کوئی بھی پارٹی ہو یا کوئی بھی سرکار، سبھی بدعنوانی کو جڑسے اکھاڑ پھینکے کا دعویٰ وقت وقت پر کرتی رہتی ہیں۔ ملک کے کئی وزرائے اعظم نے بھی اعلان کیا ہے کہ ان کی سرکار بدعنوانی کے خاتمے کے لئے پابند عہدہے۔ بدعنوانی کے معاملے میں کچھ دلچسپ حقائق کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔ سبھی اسکینڈل صرف الیکشن سے پہلے ہی اچھالے جاتے ہیں۔ الیکشن کے دوران عوامی جلسوں میں جوشیلی تقریر کرکے اپنے حریفوں پر سخت حملے کئے جاتے ہیں۔ قصورواروں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے کی مانگ کی جاتی ہے۔ یہ سارا طوفان الیکشن ختم ہوتے ہی ٹھنڈا پڑجاتا ہے پھر کوئی ان اسکینڈلوں پر دھیان نہیں دیتا۔ اگلے الیکشن تک اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال بوفورس اسکینڈل ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ہر لوک سبھا الیکشن کے پہلے اس اسکینڈل کو اچھالا جاتا ہے اور پھر بھلا دیا جاتا ہے۔ آج تک اس میں ایک چوہا بھی نہیں پکڑا گیا۔ دوسری طرف جین حوالہ اسکینڈل تھا جسے کسی بھی الیکشن میں کوئی ایشو نہیں بنایا گیا، کیونکہ اس اسکینڈل میں ہر بڑی پارٹی کے اہم لیڈر پھنسے تھے تو شور کون مچائے؟ اگر کوئی لیڈر رشوت لیتا ہے تو اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ملک میں رشوت لینا اتنا عام ہوچکا ہے کہ ایسی خبروں سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگ تو مان ہی چکے ہیں کہ سیاست بدعنوانی کا مترادف ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے اندر کمار گجرال نے کہا تھا کہ وہ بدعنوانی کی روک تھام میں لاچار ہیں۔ ادھر ہندوستان کے چیف جسٹس کے عہدے پر رہتے ہوئے جسٹس ایس پی بھروچہ نے بھی تسلیم کیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ میں 20فیصد بدعنوانی ہے۔ مقننہ اور عدلیہ کی چوٹی کے لوگ ایسی بات کہتے ہیں تو عاملہ کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ ہی نہیں کہ وہاں اوپر سے نیچے تک بہت زیادہ بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے۔
سیاست سے وابستہ کوئی بھی آدمی نہیں چاہتا کہ کسی بھی اسکینڈل کی ایمانداری سے جانچ ہو اور قصورواروں کو سزا ملے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آج جو الزام ان کے مخالفین پر لگ رہا ہے کل وہ ان پر بھی لگ سکتا ہے۔ ہر پارٹی کی یہی منشا ہوتی ہے کہ وہ اپنی مخالف پارٹی کی بدعنوانی کے معاملوں کو عوام کے درمیان اچھال کر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرلے اس عمل میں بیوقوف عوام ہی بنتے ہیں۔ آج اخلاقیات پر شور مچانے والی ہر پارٹی سے پوچھنا چاہیے کہ جس معاملے میں ثبوت نہیں کے برابر ہیں اس پر تو آپ کتنے جوشیلے ہیں، لیکن جس جین حوالہ اسکینڈل میں ہزاروں ثبوت موجود تھے اس کی جانچ کی مانگ کے نام پر ہر پارٹی کیوں خاموش رہی؟
جمہوریت کے تین ستون اس بری طرح سے بدعنوانی کے کینسر سے متاثر ہیں کہ کسی کو کوئی راستہ نہیں دکھائی دیتا۔ ایسے ماحول میں جب کبھی کوئی اسکینڈل اچھلتا ہے تو دوچار دن کے لئے بحث میں رہتا ہے اور پھر لوگ اسے بھول جاتے ہیں۔ اگر مرکزی سرکار واقعی بدعنوانی کو دور کرنا چاہتی ہے تو کیا وہ یہ بتائے گی کہ جن اعلیٰ افسروں کے خلاف سی بی آئی نے معاملے درج کر رکھے ہیں ان کے خلاف سی بی آئی کو کارروائی کرنے کی اجازت آج تک کیوں نہیں دی گئی؟ سرکار کے اہم لیڈر کیا یہ بتائیں گے کہ دہشت گردی سے جڑے معاملوں میں سی بی آئی کے جن افسروں نے مجرموں کی مدد کی، انہیں سزا کے بدلے پروموشن یا بیرون ملک میں تعینات کرکے انعام سے کیوں نوازا گیا؟ کیا وہ بتائیں گے کہ ان کی پارٹی کے سبھی لیڈر عہدہ سنبھالتے وقت اپنی اپنی جائیداد کی پوری تفصیل عوام کو کیوں نہیں بتاتے؟ کیا وہ بتائیںگے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مرکزی ویجیلنس کمیشن کو یہ اختیار کیوں نہیں دیا گیا کہ کمیشن اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں اور لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے معاملے میں جانچ کرنے کے لئے آزاد ہو؟ کیا وہ بتائیں گے کہ انہوں نے اپنی مدت کارکردگی میں بدعنوانی کے ملزم لوگوں کو عام عہدوں پر فائز کیوں کیا؟ کیا ملک میں اسی تجربے اور اہلیت کے ایماندار افسروں کی کمی ہوگئی ہے؟ کیا سرکار بتائے گی کہ سی بی آئی کے پاس بدعنوانی کے جو بڑے معاملے ٹھنڈے بستے میں پڑے ہیں، ان کی جانچ میں تیزی لانے کے لئے انہوں نے کیا کوششیں کیں؟اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
در اصل کوئی سیاسی لیڈر ملک کو بدعنوانی سے پاک نہیں کرنا چاہتا۔ صرف اسے دور کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ کر عوام کو بیوقوف بنانا چاہتا ہے اور اس کے ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن سے ٹھیک پہلے بڑے بڑے اسکینڈل اچھالے جاتے ہیں۔ جب ہندوستان کے چیف جسٹس ہی مان چکے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں 20فیصد لوگ بدعنوان ہیں تو کیسے مانا جائے کہ سیکڑوں کروڑوں روپے کا اسکینڈل کرنے والے لیڈروں کو سزا ملے گی۔
آنجہانی مزاحیہ شاعر کاکا ہاتھرسی کہا کرتے تھے۔ کیوں ڈرتا ہے بیٹا رشوت لے کر، چھوٹ جائے گا تو بھی رشوت دے کر۔ الیکشن میں پیسہ چاہیے۔ پیسہ بڑے امیر لوگ ہی دے سکتے ہیں۔ بڑا دولت مند بینکوں کے بڑے قرض مار کر اور بہت بڑی مقدار میں ٹیکس چوری کرکے ہی بنا جاتا ہے۔ ایسے سبھی بڑے دولت مند چاہتے ہیں کہ سرکار میں وہ لوگ اہم عہدوں پر رہیں، جو ان کے مفاد میں کام کرنے والے ہوں۔ ایسے لوگ وہی ہوں گے جو بدعنوان ہوں گے۔ یہ ایک ایسا پہیہ ہے جس میں ہر سیاسی لیڈر الجھا ہوا ہے۔ بدعنوانی سے نمٹنے کے لئے انفرادی طور پر ہر آدمی کو قربانی دینی پڑے گی۔ آج کے سیاسی لیڈر نہ تو قربانی دینے کو تیار ہیں اور نہ ہی اپنے سکون پر کوئی آنچ آنے دینا چاہتے ہیں اس لئے ان میں خطرہ اٹھانے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ بغیر خطرہ اٹھائے یہ لڑائی نہیں لڑی جاسکتی اس لئے بدعنوانی کا ہر معاملہ پانی کے بلبلے کی طرح اٹھتا ہے اور پھوٹ جاتا ہے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭٭٭