تنگ نظری حکمرانی کا ایک خاص وصف ہوتی ہے اور حکومتی دسترخوان کے خوشہ چین اپنی نادر خیالی اور نت نئی تجاویز سے اس وصف کوآبدار کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے ہیں۔علم کی فضیلت، سائنس و ٹیکنالوجی کی برتری اور ہنر کی عالم کاری کوبھی محدود کرکے ایک ایسے دائرہ میں بند کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں جہاں سے اختلاف و احتجاج کا کوئی روزن نہ کھل سکے۔کسی صاحب دانا و بینا کو حکومتی کج روی پرانگشت نمائی کا کوئی موقع نصیب نہ ہو اور نہ ہی کسی ذہن میں حکومت کے ’افکارعالیہ‘ سے اختلاف کا ’خیال بد‘ پیدا ہو۔ سوشل میڈیا کے ارد گرد قانون اور ضابطوں کاحصار کھڑا کرنے کی مرکزی حکومت کی تازہ کوشش کو اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ متنازع زرعی قانون کے خلاف احتجاج و تحریک میں عالمی ہستیوں کی شمولیت اور اووردی ٹاپ میڈیا سروس(او ٹی ٹی)پر گریٹاتھن برگ و دشاروی ٹول کٹ وائرل ہونے اور ’ ٹانڈو‘ نامی ویب سیریز کی مقبولیت کے بعد اچانک حکومت انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہے اور وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا کی رہنمائی کیلئے ہدایات جاری کیں۔ سوشل میڈیا کے ’ غلط استعمال‘ پر پابندی لگانے کے نام پر جاری ہونے والی ان ہدایت و ضوابط میں حکومت نے بڑی دور کی کوڑیاں شامل کی ہیں اور کہاہے کہ اگلے تین ماہ کے اندر ایسی قانون سازی کی جائے گی کہ ڈیجیٹل مواد کو ’ باقاعدہ‘ کیا جاسکے۔ان تین مہینوں کی مدت میں سوشل میڈیا کے ذمہ دار خود کو درست کرکے حکومتی معیار کے لائق بنائیں ورنہ ان کے خلاف حکومت قانون اور ضابطے کے مطابق کارروائی کرے گی۔اپنی رہنما ہدایت میںحکومت نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ’گڑبڑ‘ پھیلانے والوں کی معلومات بھی ان کمپنیوں کو دینی ہوگی اور کمپنیوں کو ایک مناسب میکانزم بنانا ہوگا۔یہ رہنما خطوط ملک کے ہر فرد پر لاگوہوں گے، چاہے وہ کسی سیاسی پارٹی کاکارکن ہو یا عوام میں سے کوئی۔ کسانوں کی تحریک میں اوٹی ٹی پلیٹ فارم پر گریٹاتھن برگ اور دشاروی ٹول کٹ معاملے میں ہونے والی بھد کے بعدڈیجیٹل مواد کو ’ باقاعدہ‘ یعنی اپنی مرضی کے مطابق کرنے کے حکومتی اقدام کو ملک کے جمہوریت پسندوں کی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ کہاجارہاہے کہ حکومت سوشل میڈیا پرا پنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔سوشل میڈیاکا مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر اور مرکزی حکومت کے مابین رسہ کشی کے دوران حکومت نے کسان تحریک میں شامل ہندوستان کے ایسے لوگوں کے اکائونٹ بند کرنے کو کہاتھا جو کسان تحریک میں شامل ہیں،حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ٹوئٹر اکائونٹس کسانوں کے احتجاج کے نام پر ملک میں گمراہ کن اور اشتعال انگیز معلومات پھیلاتے ہیں۔ لیکن ٹوئٹر نے حکومتی مطالبہ پر کان دھرنے اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ٹویٹر نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس سلسلے میں ایک بلاگ بھی شیئر کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے آئین کے مطابق، وہ صارفین کے اظہار رائے کے آزادی کے حق کی حمایت کرتا رہے گا۔ اگر کسی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند ہے تو یہ ان کے اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کے بعد سے سوشل میڈیا کے خلاف حکومت کا رویہ بدلنے لگا اور یہ خیال کیاجانے لگا کہ مرکزی حکومت اب مائیکروبلاگنگ سائٹ کے خلاف آخری حد تک جاسکتی ہے۔دشاروی ٹول کٹ میں عدالت سے ہزیمت کے بعد حکومت نے اسے انا کا مسئلہ بنالیا۔ ضابطہ بندی کی تفصیلات بتاتے ہوئے مرکزی وزرا نے دہلی کے لال قلعہ کے واقعہ کی مثال دی اور کہا کہ سوشل میڈیا کو ہندوستان میں کام کرناچاہیے لیکن دوہرا معیار نہیں ہوسکتا ہے۔ اب پتہ نہیں یہ وزرا دوہرا معیارکسے کہہ رہے ہیں تاہم انہوں نے اپنا انتباہی پیغام بڑے ہی واضح انداز میں سوشل میڈیا تک پہنچادیا ہے کہ اگر حکومت کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے تو انہیں اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔حکومت نے اس کیلئے دلیل دی ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس سے ملک کے استحکام، سالمیت اور بقا کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ چند ایک شرارتی عناصر سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرتے ہیں لیکن مجموعی طور پر سوشل میڈیا کے مثبت اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔ ایک طرف یہ جہاں دنیا بھر کے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کا اہم ذریعہ ہے اور دنیا میں مواصلات کو ایک نئی جہت بخشی ہے وہیں معاشرے کے مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے لوگوں کی آواز بن کر ابھرا ہے۔آزادی اظہار رائے کے حق کواس نے ایک بامعنی مفہوم دیا ہے، اس پلیٹ فارم سے آج ہر کوئی اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے اور بغیر کسی خوف کے ہزاروں افراد تک پہنچ سکتا ہے۔ غلط استعمال اور شرارتی عناصر کی نشاندہی کے نام پر سوشل میڈیا کے فیضان کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے اور اسے مکمل ضابطہ بند کیاجانابھی درست نہیں ہوگا۔تاہم رازداری کے حق کی خلاف ورزی کیے بغیر تمام فریقوں کی مشاورت سے ایسا متبادل ضرور اختیار کیاجانا چاہیے جس سے اس کے غلط استعمال پر روک لگ سکے۔
[email protected]
سوشل میڈیا کے گرد حصار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS