ونیت نارائن
دنیا کا سب سے پرانا جمہوریہ، امریکہ نہیں ہندوستان ہے۔ 600قبل مسیح ہندوستان میں سیکڑوں جمہوریہ تھے جہاں بغیر جنس اور ذات کے بھید بھائو کے ہر طبقے کے نمائندے کھلی بات چیت کے بعد حکومت کے ضوابط اور قانون طے کرتے تھے۔ پھر راج تنتر کا قیام ہوا اور 2000سے زیادہ سالوں تک چلا۔ مانا یہ جاتا ہے کہ آزادی کی لڑائی کے دوران مغربی خیالات سے اثر انداز ہوکر برابری، آزادی اور بھائی چارے کی ہندوستان میں تشہیر ہوئی اور اسی سے پیدا ہوا ہمارا آج کا جمہوریہ۔ جسے آج پوری دنیا میں اس لئے سراہا جاتا ہے کیونکہ اس میں بغیر خونی انقلابات کے انتخابات کے ذریعے سے پرامن طریقے سے سرکاریں بدل جاتی ہیں، جبکہ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے پڑوسی ممالک میں آئے دن فوجی تختہ پلٹ ہوتا رہتا ہے۔
آج پوری دنیا مانتی ہے کہ حکومت کا سب سے اچھا طریقہ جمہوریت ہی ہے۔ کیونکہ اس میں کسی کے ڈکٹیٹر بننے کے امکانات نہیں رہتے۔ ایک چائے بیچنے والا بھی ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے یا ایک دلت ہندوستان کا صدر یا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ اپنی اس خوبی کے باوجود ہندوستان کی جمہوریت کی خامیوں پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ ساتویں دہائی میں گجرات کی طلبا تحریک اور پھر لوک نائک جے پرکاش نارائن کی قیادت میں سنگھرش واہنی کے ذریعہ سے پیدا ہوئے عوامی اشتعال کا خاتمہ پہلے ایمرجنسی کا اعلان اور پھر مرکز میں اقتدار پلٹنے سے ہوئی۔ تب سے آج تک کئی قومی تحریکیں اور علاقائی تحریکوں کی وجہ سے ریاستوں اور مرکز میں حکومتیں الیکشن کے ذریعہ پرامن طریقے سے بدلتی رہی ہیں، لیکن ہماری جمہوریت کی کوالٹی نہیں سدھری۔ اس کے برخلاف سیاست میں جواب دہی اور شفافیت تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے۔
آج سیاست میں نہ تو نظریے کی کوئی اہمیت بچی ہے اور نہ ہی ایمانداری۔ ہر پارٹی میں سماج کے لئے زندگی گزارنے والے کارکن کبھی بھی اپنا مناسب مقام نہیں پاتے۔ ان کی زندگی دری بچھانے اور نعرے لگانے میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ہر پارٹی الیکشن کے وقت ٹکٹ اسی کو دیتی ہے جو کروڑوں روپے خرچ کرنے کو تیار ہو یا اس کی حمایت میں اس کی ذات کا بہت ووٹ بینک ہو۔ پھر چاہے اس کی مجرمانہ تاریخ رہی ہو یا اس نے بار بار پارٹی بدلی ہو اس کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھارت میں بھی جمہوریت صحیح معنوں میں عوام کی توقعات کے مطابق کام نہیں کرتی۔ ہر پارٹی اور ہر سرکار میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ڈکٹیٹر شپ جیسے حالات دیکھے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہندوستان ہمیشہ ایک انتخابی ماحول میں الجھا رہتا ہے۔ انتخابات جیتنے کے کامیاب نسخوں کو ہر وقت ہر پارٹی کے ذریعہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ نتیجتاً ملک میں فرقہ وارانہ تشدد یا تنائو اور عوامی وسائل کی کھلی لوٹ کا تانڈو چلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے سماج کا ہر طبقہ ہمیشہ غیر محفوظ رہتا ہے۔ ایسے میں عام آدمی کی مکمل ترقی کا تصور کرنا بھی بے معنی ہے۔ در اصل بنیادی ضرورتوں کے لئے آج بھی ہمارا سماج رات دن جدوجہد میں رہتا ہے۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے چل رہی کسان تحریک کو مودی جی کسانوں کی پوتر تحریک بتاتے ہیں اور آندولن جیویوں پر حملہ کرتے ہیں۔ اپنی غیر جانبداری کھوچکا میڈیا کا ایک بڑا حصہ آندولن کاریوں کو دہشت گرد، خالصتانی یا نکسل وادی بتاتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں سرکار کو سرمایہ کاروں کا دلال اور کسان مخالف بتارہے ہیں لیکن سچائی کیا ہے کون سی پارٹی ہے جو سرمایہ کاروں کی دلال نہیں ہے، کون سی پارٹی ہے جو اقتدار میں آکر کسان و مزدوروں کی اقتصادی ترقی کو اپنی اولیت مانتی ہو۔ مال و دولت سے بھرپور ہندوستان کا محنت کش عام آدمی آج اپنے بدقسمتی کی وجہ سے نہیں بلکہ حکومت میں مسلسل چلی آرہی بدعنوانیوں کے سبب غریب ہے۔ ان سب مسائل کی اصل میں ہے بات چیت کی کمی۔ آندولن کررہے کسانوں اور حکومت کے درمیان جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ بھی بات چیت کی کمی کے سبب ہوئے ہیں۔ اگر یہ زرعی قوانین بہتر بات چیت کے بعد لاگو کئے جاتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔ آج دہلی بارڈر سے نکل کر کسانوں کی مہاپنچایتوں کا ایک سلسلہ چاروں جانب پھیلتا جارہا ہے اور یہ سلسلہ آسانی سے رکنے والا نہیں لگتا، کیونکہ اب اس میں اپوزیشن پارٹیاں بھی کھل کر کود پڑی ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ ان مہاپنچایتوں کے دبائو میں آکر سرکار ان قانونوں کو واپس لے لے، لیکن اس سے ملک کے کسان مزدور اور عام آدمی کو کیا اس کا واجب حق مل پائے گا؟ ایسا ہونا نا ممکن ہے اس لئے لگتا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب پارٹیوں کی دلدل سے باہر نکل کر جمہوریت کو زمینی سطح پر مضبوط کیا جائے جس کے لئے ہمیں 600قبل مسیح ہندوستانی جمہوری ریاستوں سے سبق لینا ہوگا۔ جہاں بات چیت ہی جمہوریت کی کامیابی کی کنجی تھی۔ برسراقتدار پارٹیوں سمیت ملک کی ہر پارٹی کو اس میں پہل کرنی ہوگی اور ساتھ ہی سماج کے ہر طبقے کے بیدار لوگوں کو آگے آنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی مہاپنچایت ہر تین مہینے میں ہر ضلع کی سطح پر منعقد کی جائیں، جس میں مقامی ریاستی اور قومی ایشوز پر عوام کے درمیان بات چیت ہو۔ ان مہاپنچایتوں میں کوئی بھی سیاسی پارٹی یا تنظیم اپنا جھنڈا یا بینر نہ لگائے، صرف ترنگا جھنڈا ہی لگایا جائے اور نہ ہی کوئی نعرے بازی ہو۔
مہاپنچایتوں کا انعقاد ایک کوآرڈی نیشن کمیٹی کرے جس میں بات چیت کے لئے طے کئے ہوئے ایشوز میڈیا کے ذریعہ سے علاقے میں پہلے ہی تشہیر کردئے جائیںاور ان پر اپنی بات رکھنے کے لئے علاقے کے لوگوں کو کھلی دعوت دی جائے۔ ان مہاپنچایتوں میں اس علاقے کے ممبر پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز کی صرف سننے والوں کی حیثیت سے موجودگی ضروری ہو، تقریر کرنے والوں کی شکل میں نہیں۔ کیونکہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ہر ایشو کے لئے بحث کا وقت نہیں ملتا۔ اس طرح عوام کی بات حکومت تک پہنچے گی اور پھر دھرنوں، مظاہروں اور ہڑتالوں کی ضرورت گھٹتی جائے گی۔ اگر ایمانداری سے کوشش کی جائے تو یقینی طور پر ہماری جمہوریت مضبوط ہوگی اور ہر ہندوستانی مسلسل جدوجہد کرکے اپنے حق کو پانے کے لئے باخبر رہے گا پھر اس کی بات سننا سرکاروں کی مجبوری ہوگی۔
٭٭٭