فاروق فاروق عبداللہ ایک سردو گرم چشیدہ سیاست داں اور تجربہ کار پارلیمنٹرین ہیں ۔سیکولرزم پر ان کا عقیدہ اٹوٹ ہے ۔ ملک کی وحدت اور سالمیت کیلئے وہ سیکولرزم کو بنیاد کی اینٹ کا درجہ دیتے ہیں۔ ملک کے سیکولر اقدار پر کسی بھی طرح کی چوٹ ان کیلئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ کسی لاگ لپٹ کے بغیر دوٹوک انداز میں اس کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ حقائق کے بیان میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا ہے ۔
لو ک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر اظہار تشکر کے دوران بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کل جو تقریر کی وہ ملک کے سیکولر اقدار سے ان کی ’وفاداری بشرط استواری‘ کی مکمل تفسیر تھی۔ جموں و کشمیر کو سہ لخت کیے جانے، وادی میں ملکی سپاہ کی درانہ وار کارروائی، تقریباًایک سال کی طویل نظربندی کا غم سہنے کے باوجود جب انہوں نے ایوان سے خطاب کیا تو ان کے لہجہ میں وہی طنطنہ تھاجو ان کا خاصہ ہے ۔نہ تو وہ سیکولرز م سے آزردہ تھے نہ ان کی وفاکسی ستائش کی تمنائی تھی ۔ان کی تقریر کا ہر لفظ سیکولرزم سے ان کی وفاشعاری کا اظہار تھا۔ا ن کی تقریر میں ملک سے بے پایاں محبت جھلک رہی تھی ۔ہاں موجودہ سیاسی منظر نامہ پرروزافزوں پھیل رہی عصبیت، جارحانہ قوم پرستی،مذہبی امتیازاور سیکولر اقدار کی بنیادوں پر پڑرہی ضربات سے وہ شاکی ضرور تھے لیکن یہ بھی ان کی سیکولردوستی کا ہی ایک پہلو تھا ۔
انہوں نے کہا کہ بھگوان اور اللہ ایک ہیں، ان دونوں میں فرق کیا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔سیکولرزم سے اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کیلئے وہ یہ تک کہہ گئے کہ جس طرح قرآن پاک میںپوری عالم انسانیت کیلئے وحی کی گئی ہے ٹھیک اسی طرح رام بھی سبھی کیلئے بھیجے گئے ہیں۔ رام کے نام پر سیاست اور انہیں کسی مخصوص فرقہ سے وابستہ کرکے ان کی عظمت کو محدود نہیں کیاجاسکتا ہے ۔
اپنی ذاتی زندگی میںبھی وہ صلح کل اور لادینیت سے وفاکے بارہا ثبوت دیتے آئے ہیں۔لیکن یہ قلق ان کے دل میں جاگزیں ہوگیا ہے کہ ان کی وفاپراب بھی حرف گیری ہوتی ہے، لوگ سوال اٹھاتے ہیں ۔انہیں یہ شکایت تھی کہ انہیں پاکستانی کہا جاتا ہے، خالصتانی اور چینی کہاجاتا ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ یہیں (ہندوستان) جیتے ہیں اور یہیں انہیں مرنا ہے ۔ جموں و کشمیر کے عوام کو انہوں نے دل سے لگانے اور ان کا دل جیت کر انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی اپیل کی ۔
سیکولرزم اور ملک سے وفاداری پر شبہ صرف فاروق عبداللہ کی ذات تک محدود نہیں ہے۔ مجموعی طور پر جموں وکشمیرکے باشندگان اس کرب سے گزرتے رہے ہیں۔بلکہ گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان کی سیاست میں جو تبدیلی آئی ہے اس نے ملک کے ایک بڑے طبقہ کو یہ سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ انہیں ملک سے وفادار نہیں سمجھاجاتا ہے۔ ہر نوع کی قربانی اورا یثار کے باوجودانہیں مشکوک نظروں سے دیکھاجاتا ہے ۔یہ طبقہ ملک سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے ایک مسلسل عذاب سے گزررہا ہے ۔گزشہ چندبرسوں سے یہ دیکھاجارہا ہے کہ ہر وہ طبقہ جو آئین کی رو سے اپنے حقوق کاطالب ہے اسے دیوار سے لگایا جارہاہے۔ زبان بندی کے نئے نئے ہتھیاراستعمال کیے جارہے ہیں ۔شہریت قانون کے خلاف تحریک ہو یا پھر زرعی قوانین کے خلاف جاریہ تحریک، ان سے ہمدردی رکھنے والوں تک کو انتہائی بے رحمانہ طریقہ سے ملک دشمن قرار دے کر دیس سے نکال دینے کی دھمکی بھی دی جانے لگی ہے ۔
یہ جارحانہ رویہ ملک د وستی نہیں بلکہ صریحاً ملک دشمنی ہے ۔ اس رویہ سے اپنے ہی ہم وطنوں میں اجنبیت اور بے گانگی کے بیج بو رہے ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا جب ملک کی وحدت و سالمیت کے سامنے چیلنج کھڑاہوجائے گا۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس کا ادراک رکھنے کے باوجود سیاسی اشرافیہ صرف اپنے وقتی فائدہ اور اقتدار تک رسائی کیلئے اس رویہ کو ہوا دینے میں پیش پیش ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی لحاظ سے ٹھیک نہیں کہی جاسکتی ہے۔ ہندوستان کے خمیر ا ور بنیاد میں سیکولرزم اور جمہوریت کا عنصرشامل ہے ۔ان دونوں عناصر کے بغیر ہندوستان ایک اجنبی ہندوستان ہوگا۔ ہمارے آئین کے معماروں نے ہندوستان کے تکثیری معاشرہ کو سامنے رکھتے ہوئے ریاست کو مذہب سے الگ کرکے اپنی ژرف نگاہی کا ثبوت دیا تھا۔
مذہب، ذات برادری اوررنگارنگ طبقات پر مشتمل ہندوستانی معاشرہ میں کثرت تعداد کی بنا پر کسی خاص مذہب کو ریاست پر مسلط کرنے کی کوشش اور مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر امتیاز، وفا کا ثبوت طلب کرنامعاشرہ کی بقا کیلئے چیلنج ہوگا اور اس سے علیحدگی پسندی کو بھی ہوا ملے گی۔مستقبل میں ملک کو ایسی کسی بھی صورتحال سے بچانے کیلئے لازم ہے کہ فاروق عبداللہ کے دردمندانہ انتباہ کو جذباتیت سمجھ کر سرسری گزرنے کے بجائے اس پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور و عمل کیاجائے ۔
[email protected]
فاروق عبداللہ کا دردمندانہ انتباہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS