ڈاکٹر سید ظفر محمود
برطانوی پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس شدہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کے تحت ہندوستان کے مرکزی و صوبائی ایوان میں شیڈولڈ کاسٹ کے لیے نشستیں ریزرو کی گئی تھیں جس کے نو ماہ بعد لندن کے بکنگھم پیلس سے 30اپریل 1936کوشیڈولڈ کاسٹ آرڈر جاری ہوا تھاجس کے ذریعہ ان ذاتوں، نسلوں اور قبیلوں کو فہرست بند کیا گیا تھا جن کے لیے یہ نشستیں ریزرو رہیں گی۔ اس آرڈر میں ان ذاتوں، نسلوں اور قبیلوں کے ساتھ کسی بھی مذہب کو نہیں جوڑا گیا تھا،ہاںہندوستانی عیسائیوں کو اس فہرست سے اس لیے مستثنیٰ رکھنا پڑا تھا کیونکہ1935 کے ایکٹ کے تحت ہی ہندوستانی عیسائیوں کے لیے مرکزی و صوبائی ایوانوں میں نشستیں الگ سے ریزرو کی گئی تھیں۔شیڈولڈ کی اس تعریف سے بنگالی بدھسٹوں(جو عموماً بروا کہلاتے ہیں)کو بھی مستثنیٰ رکھا گیا تھا کیونکہ وہ اس وقت سماج کے اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ لوگ ہوتے تھے۔شیڈولڈ کاسٹ سے متعلق 1935-36 کی اس اصطلاح کو ہوبہو دستور ہند کے مسودے کی شق 303(w) میں چسپاں کردیا گیا تھا۔ بعدازاںآزاد ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی کے جوائنٹ سکریٹری نے اپنے خط مورخہ 23؍اپریل1949کے ذریعہ یوپی کے چیف سکریٹری کو تحریر کیا تھا کہ دستور میں مجوزہ نویں شیڈول کے ذریعہ شیڈولڈ کاسٹ کی مندرجہ بالا فہرست کو شامل کرنے کے لیے نوٹس دیا جاچکا ہے، لہٰذا دستور کے مسودہ میں شق303(w)کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی اور اسے حذف کردیا جائے گا۔ اس طرح دستور کی ڈرافٹنگ کمیٹی نے طے کر دیا تھا کہ 1935 کے ایکٹ اور 1936 کے آرڈر میں کوئی بھی تبدیلی کیے بغیر اس کے مغز کو لفظ بہ لفظ دستور ہند میں شامل کر لیا جائے گا۔ اس طور پر 26جنوری 1950کے دستور ہندکے آرٹیکل 341(1) میں مندرجہ بالا الفاظ کو تحریر کر دیا گیا یہ کہتے ہوئے کہ صدر جمہوریہ ان ذاتوں، نسلوں و قبیلوں کی فہرست جاری کردیں گے اور آرٹیکل366(24) کے ذریعہ شیڈولڈ کاسٹ کی اس تعریف کی حتمیت، دخول ناپذیری اور صحت و قوت کو دہری مضبوطی مہیا کردی گئی۔ لیکن اس کے چھ ماہ بعد 10 اگست 1950کوکانسٹیٹیوشن(شیڈولڈ کاسٹ )آرڈر جاری کیا گیا جس کے ذریعہ دستور ہند کی صریح منشا کو مسخ کر دیا گیا اور شیڈولڈ کاسٹ کی دستوری تعریف کی تخریب کاری عمل میں آئی۔ اس آرڈر کے پیرا (3) میں لکھ دیا گیا کہ ’شرط یہ ہے کہ ہندو مذہب کو نہیں ماننے والا ہر فردشیڈیولڈ کاسٹ کی تعریف سے خارج مانا جائے گا‘۔ اس کے بہت بعد 25ستمبر 1956 کو اور 3 جون1990کو پارلیمنٹ نے 1950 کے آرڈرکے پیرا(3)میںترمیم کرکے لفظ ہندو کی جگہ ’’ہندو، سکھ یا بدھ‘‘ لکھ دیا۔
افسر شاہی کے ذریعہ دستور ہند کے اس تباہ کن انحراف کی بازاندازی سے معلوم ہوتا ہے کہ آرٹیکل341کا حوالہ دیتے ہوئے 19 دسمبر1949کو مرکزی وزارت قانون کے جوائنٹ سکریٹری کے وائی بھنڈارکر نے تمام صوبوں کے چیف سکریٹریوں کو اپنے خط میں لکھ کر دریافت کیا تھا کہ ان کے صوبہ میں کن ذاتوں، نسلوں اور قبیلوں کو شیڈولڈ کاسٹ کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ لیکن اس خط کے آخر میں انھوں نے اپنی طرف سے ایک بے بنیاد شوشہ چھیڑتے ہوئے صوبوں کی یہ بھی رائے مانگ لی کہ ’ اگر شیڈولڈ کاسٹ کا کوئی ممبر اپنا مذہب تبدیل کر دیتا ہے تو کیا پھر بھی اسے شیڈولڈ کاسٹ کا ممبر مانا جائے؟‘حالانکہ یہ پرفریب سوال پوچھنے کا حکومت کے پاس یا اس افسر کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔پھر بھی پندرہ صوبائی حکومتوں نے اس سوال کا جواب دیا۔ مدھیہ پردیش، پنجاب اور پیپسو(پٹیالہ و پوربی پنجاب) نے کہا کہ تبدیلی مذہب سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اوراس کے باوجود شیڈولڈ کاسٹ اسٹیٹس مانا جانا چاہیے۔ نو صوبوں مدراس، یوپی، بہار، سی پی و برار، اڑیسہ، بامبے، ٹریونکور و کوچن، مہاراشٹرا و راجستھان نے کہا کہ تبدیلی مذہب کے بعد شیڈولڈ کاسٹ اسٹیٹس باقی نہیں رہنا چاہیے حالانکہ کسی بھی صوبہ نے کسی خاص مذہب کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ مغربی بنگال اور آسام نے دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہا کہ ہندوئوں کے علاوہ کسی کو شیڈولڈ کاسٹ کے تحت کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔ میسور کا جواب تھا کہ شیڈولڈ کاسٹ کے ممبر کو حق ہونا چاہیے کہ وہ چاہے تو اپنا مذہب تبدیل کرلے۔ یہاں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دستور ہند شیڈولڈ کے تعلق سے مذاہب کے مابین تفریق نہیں کرتا ہے،آرٹیکل341 نے صدر کو محدود اجازت دی ہے کہ وہ ذاتوں، نسلوں و قبیلوں کی شناخت کرکے ان کی درجہ بندی کریں، صوبوں کے نام 1949 والے بھنڈارکر کے خط میں بھی کسی خاص مذہب کا ذکر نہیں تھا اور پندرہ میں سے صرف دو صوبوں نے اپنے جواب میں لفظ ہندو کا استعمال کیاتھا۔ لہٰذا مرکزی وزارت قانون کی مندرجہ بالا کارروائی صرف غیردستوری ہی نہیں تھی بلکہ صوبوں سے موصول شدہ جوابات کی بنا پر بھی وزارت یا صدر کے پاس کوئی جواز نہیں تھاکہ وہ 1950 کے آرڈر میں پیرا (3) شامل کریں۔
اس کے باوجودمرکزی وزارت قانون کے افسر نے فائل پر اپنے نوٹ مورخہ 3فروری1950 میں غلط بیانی کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ مدھیہ پردیش، پنجاب اور پیپسو کے علاوہ سبھی صوبائی حکومتیں متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص ہندو مذہب چھوڑ دے تو اسے شیڈولڈ کاسٹ میں رہنے کا حق نہیں ہونا چاہیے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اکثریت کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے ہم مجوزہ نوٹیفکیشن میں ایساہی لکھ دیں‘‘۔ بلکہ اس افسر نے یہ بھی لکھ دیا کہ1936کے برطانوی آرڈر میں بھی ہندوسانی عیسائیوں کو شیڈولڈ کاسٹ کی تعریف میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور اس نے فائل پر اپنے نوٹ میں سے یہ بات چھپا لی کہ ہندوستانی عیسائیوں کو اس وجہ سے شیڈولڈ کاسٹ کی تعریف میں سے الگ کیا گیا تھا کیونکہ انھیں خود ایک الگ گروپ تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے مرکزی و صوبائی ایوانوں میں سیٹیں الگ سے ریزرو کی گئی تھیں۔ بعد میں 2مارچ 1950کو وزارت قانون کے ڈپٹی سکریٹری بی جی مردیشور نے فائل پر نوٹ لکھا کہ ’’حالانکہ ہندوستان کے مسلم و عیسائی سماج بھی ذات پات سے غیر متاثر نہیں ہیں لیکن ان مذاہب میں داخل ہونے کے بعد شیڈولڈ کاسٹ کے افراد کو ایسی معذوریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی اقتصادی اور ثقافتی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو، اس لیے انھیں اس تحفظ کی ضرورت نہیں ہے جوشیڈولڈ کاسٹ کو ملنا چاہیے‘‘۔ اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ مرکزی وزارت قانون کی فائلوں پر لکھے گئے نوٹ مورخہ 3 فروری اور 2 مارچ 1950 گمراہ کن و دستور مخالف تھے۔ اسی وجہ سے جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن نے2007 کی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ 1950 کے شیڈولڈ کاسٹ آرڈر کا پیرا (3) ایک کالا لفظ ہے جو ایگزیکٹیو کے ذریعہ دستور ہند میں پیچھے کے دروازے سے داخل کیا گیا ہے اور یہ دستور کے آرٹیکل 14، 15، 16 و 29 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔یہ دستور کے اس بنیادی ڈھانچے کے بھی مخالف ہے جو کیسوآنند بھارتی بنام کیرالہ سرکار مقدمہ میں بیان کیا گیا تھااور مہاراجہ دھیراج جواجی راجہ سندیا بہادر مادھو رائو بنام حکومت ہند کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر پیرا (3) کو منسوخ کردیا جانا چاہیے۔ انھوں نے لکھا کہ یہ پیرا ایک ملعون شئے ہے جو دستور ہند کا خوصورت چہرہ بگاڑ رہا ہے۔
[email protected]