دیدی کا ووٹ آن اکائونٹ یا انتخابی منشور

0

بلاکسی تردداوراحتساب سے بالاتر ہو کرا نتخابی کامیابی کیلئے حکومت کی طاقت اور ریاست کے آئینی اداروں کو استعمال کرنے میں ہندوستان کی ہرسیاسی جماعت کا رویہ کم وبیش یکساں ہوگیا ہے۔ مرکزمیں حکمراں بی جے پی پر سیاسی اخلاقیات کی پامالی اور ریاستی اداروں کو پار ٹی کاز کیلئے استعمال کرنے کے الزامات لگانے میں پیش پیش رہنے والی ترنمول سپریمو ممتابنرجی کا دامن بھی جمہوری اور آئینی اداروں کے استحصال سے پاک نہیں رہ پایا ہے۔
مغربی بنگال میں اگلے کچھ ہی ہفتوں بعد اسمبلی کا انتخاب ہونے والا ہے۔آئین کی رو سے جس حکومت کی مدت کار ختم ہونے میں چند مہینے یا چند ہفتے رہ جاتے ہیں تو وہ حکومت مکمل بجٹ کی بجائے عبوری بجٹ پیش کرتی ہے۔ یہ عبوری بجٹ ان درمیانی چند مہینوں کے اخراجات کیلئے ہوتا ہے جس کے بعد اگلی حکومت بنتی ہے۔ مکمل بجٹ اگلی حکومت ہی پیش کرتی ہے۔
مغربی بنگال قانون ساز اسمبلی میں دو دنوں قبل وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے بھی عبوری بجٹ پیش کیالیکن اس عبوری بجٹ میں ہی انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ اگلے مالی سال ہی نہیں بلکہ آنے والے چند برسوں کے منصوبے اورا سکیم کا اعلان کردیا۔آخری دن انہوں نے ووٹ آن اکائونٹ پر ایوان سے بھی خطاب کیا۔
یہ ووٹ آن اکائونٹ اگلی حکومت بننے سے قبل مالی سال کے پہلے چار مہینوں میں ایوان سے اخراجات کی اجازت لینے کا آئینی التزام ہے۔اس پر موجودہ حکومت فقط چار مہینوں کے اخراجات کی رقم کیلئے ایوان سے اجازت لیتی ہے اور روایت یہ رہی ہے کہ ہر ایوان بغیر کسی ردوقدح کے یہ ووٹ آن اکائونٹ منظور کرلیتا ہے۔
جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا دم بھرنے والی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے اس روایت اور اس آئینی تقدس پر پانی پھیرتے ہوئے اس ووٹ آن اکائونٹ کوبھی باقاعدہ اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کیلئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرلیا۔یہ بجٹ اجلاس مغربی بنگال کی 16ویں قانون ساز اسمبلی کا آخری اجلاس تھااو ر ووٹ آن اکائونٹ پر وزیراعلیٰ،اجلاس کے آخری دن تقریر کررہی تھیں۔ان کی تقریرکو ایوان سے خطاب کے بجائے پارٹی کا انتخابی منشور کہا جائے تو بے جانہیں ہوگا۔انہوں نے اپنے خطاب میں 72 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے ریاست میں مختلف ترقیاتی کاموں کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ان کاموں سے اگلے تین برسوں میں ریاست کے ساڑھے تین لاکھ بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرایا جائے گا۔ ریاست میں انفرااسٹرکچر کی تعمیرات کیلئے بھی انہوں نے دل کھول کر اعلانات کیے اور درجنوں ایسی اسکیمیں بیان کیں جن کی تکمیل میں تین سے چار سال کی مدت لگ سکتی ہے۔ انہوں نے مغربی بنگال کے کسانوں کیلئے جاری کرشک بندھو اسکیم کی رقم بھی5000روپے سے بڑھا کر 6000 روپے کرنے کا اعلان کردیا۔
کسی رخصت ہونے والی حکومت کی ایسی اسکیمیں اور اعلانات روزانہ ہونے والے انتخابی جلسے جلوس میں ہی بھلے لگتے ہیں۔ اندرون ایوان یہ اعلانات نہ تو آئین میں مستحسن قرار دیے گئے ہیں اور نہ ہی ملک کی جمہوری روایت اس کی اجازت دیتی ہے۔
حزب اختلاف کانگریس، سی پی ایم اور بی جے پی نے بجا طورپر اس کی سخت گرفت کی ہے اوریہ ووٹ آن اکائونٹ نہیں بلکہ ترنمول کانگریس کا انتخابی منشور ہے جس کیلئے ایوان کو استعمال کیاگیا ہے۔ حزب اختلاف کی اس تنقید سے چراغ پا ہوکر وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے یہ دعویٰ کردیاہے کہ یہ عوامی فلاح کے منصوبے ہیں اوراس کا اعلان کیے جانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے وہ اگلی بار بھاری مینڈیٹ کے ساتھ واپس آئیں گی۔یہ درست ہے کہ جو پارٹی حکومت میں ہوتی ہے، اسے کچھ مراعات بھی حاصل رہتی ہیں لیکن ان کاغلط استعمال کسی بھی حا ل میں جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ اداروں کے ان ہی مبینہ استعمال پر ممتابنرجی خود اکثر و بیشتر بی جے پی کے خلاف شعلہ بیانی کرتی رہتی ہیں لیکن اپنے سلسلے میں انہوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ چونکہ ’ بھاری مینڈیٹ‘ کے ساتھ وہ اگلی بار واپس آئیں گی اس لیے وہ اداروں کے استعمال ا ور ان کی حدود کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔
منافقانہ رویہ اور دوہرے معیارکو کسی بھی معاملے میں زیبا نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ لیکن ہندوستان کی بدقسمتی ہے کہ یہ ’وصف ‘ ہر پارٹی میں کم و بیش یکساں ہے۔جو پارٹی مرکز میں حکمراں ہوتی ہے اس کے عیوب ملکی پیمانے پر ظاہرہوتے ہیں اوران کا اثر بھی ملک گیر ہوتا ہے۔بی جے پی پر اگریہ الزام ہے کہ وہ اداروں کا استعمال اپنے انتخابی فوائد کیلئے کررہی ہے تو اس معاملے میں ممتابنرجی بھی دودھ کی دھلی ہوئی نہیںرہ پائی ہیں۔ ووٹ آن اکائونٹ پر سولہویں اسمبلی کے آخری اجلاس کے آخری دن دیدی کی تقریر او ر ان کا رویہ آئین سے متصادم اور ایوان کے تقدس کے خلاف ہے۔ بہتر ہوتا کہ دیدی جن خامیوں پر دوسروں کو قابل گردن زنی سمجھتی ہیں، ان خامیوں کے سلسلے میں اپنے رویہ پر بھی غور کرلیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS