یہ چھوٹا واقعہ نہیں

0

  دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں یہ بات واضح ہونے لگی تھی کہ امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کو اپنی طاقت کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بات باضابطہ طور پر سامنے آگئی کہ دونوں کے مابین سردجنگ جاری ہے۔ ناوابستہ تحریک کے ممالک کو بھی ملالیا جائے تو اس وقت دنیا بھر کے ممالک تین حصے میں بٹ گئے تھے۔ ناوابستہ تحریک والے ممالک، امریکہ کے گروپ والے ممالک اور سوویت یونین کے خیمے والے ممالک، چنانچہ امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا اثر دنیا کے کئی ملکوں پر نظر آتا تھا مگر ان دونوں ملکوں پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑا تھا۔ سرد جنگ کے باضابطہ جنگ میں بدلنے کا اندیشہ تھا اور یہ اندیشہ اس وقت حقیقت میں بدلتا ہوا نظر آیا جب 16؍اکتوبر 1962سے 20؍نومبر 1962 کے درمیان کیوبن میزائل کرائس، کی وجہ سے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس وقت امریکہ کی کمان ایک سلجھے ہوئے لیڈر جان ایف کینیڈی کے ہاتھ میں تھی، وہ تحمل والے ایک امن پسند لیڈر تھے۔ ان کی دانشمندی کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ بھی محفوظ رہی اور جنگ بھی نہیں ہوئی۔ سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد امریکہ کے لیے تشویش کی بات نہیں رہ گئی لیکن جس چین کی اس نے مدد کی تھی، اب وہی طاقتور بن کر اُبھر چکا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ اس بات کے لیے بے چین ہیں کہ کیسے چین کو امریکہ والی پوزیشن میں لے آئیں، چنانچہ دنیا کورونا کے اثرات سے کراہ رہی ہے اور شی اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ گلوان تنازع ان کی توسیع پسندی کا ہی اظہار تھا، اسی لیے حکومت ہند نے اسے معمولی واقعہ نہیں سمجھا۔ وہ اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ چینی حکومت ہندوستان کو کمزور نہ سمجھے۔ اس سلسلے میں ہمارے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ بھارت کسی کو چھیڑے گا نہیں اور کوئی اگر اسے چھیڑے گا تو وہ اسے چھوڑے گا نہیں۔
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گرچہ چین کے خلاف ٹریڈوار چھیڑی اور بدلتے منظرنامے میں ایسا کرنا ٹھیک بھی تھا مگر ٹرمپ کی توجہ ٹریڈوار کے ساتھ ایران کے خلاف عرب ملکوں کا محاذ کھڑا کرنے اور اسرائیل کو مضبوط کرنے پر بھی رہی، چنانچہ چین کو ایران سے ہاتھ ملانے کا موقع مل گیا۔ اس کا دائرۂ اثر کچھ اور بڑھ گیا، اس لیے اس کے تیور اب زیادہ سخت ہوجائیں، اس کی طرف سے نئی نئی باتیں ہونے لگیں تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ حیرت افغانستان میں امریکی فوجیوں پر مبینہ حملے میں چین کی معاونت کی خبر پر بھی نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ چین اور امریکہ مخالف دیگر ملکوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ امریکہ افغانستان میں الجھا رہے تاکہ اقتصادی طور پر وہ کمزور ہوتا رہے اور اس کے یہاں حالات خراب ہوجائیں اور پھر وہ اسی پوزیشن میں پہنچ جائے جہاں بکھراؤ سے پہلے سوویت یونین پہنچ گیا تھا، اس لیے حملے میں معاونت کا واقعہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں، امریکی فوجیوں پر مبینہ حملے کی خبر ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقت کی بڑی خبر بن جائے۔
رپورٹ کے مطابق، ’امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کو ایسی مصدقہ رپورٹیں موصول ہوئی ہیں جن میں چین پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے افغانستان میں موجود غیرریاستی عناصر کو امریکہ کے فوجی اہلکاروں پر حملے کرنے کے لیے رقم کی پیش کش کی ہے‘۔ چین نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’یہ جعلی خبر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے جس کا مقصد چین کو بدنام کرنا ہے۔‘ لیکن یہ بات طے سی سمجھی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تنازع بڑھے گا اور ایسا ہونے کی صورت میں وہ ممالک بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں پائیں گے جو چین اور امریکہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں، اس لیے یہ تنازع اگر گفت و شنید کی حد تک ختم نہ ہوا تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مستقبل قریب کا وقت اس خطے کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ وطن عزیز کو بھی اسی مناسبت سے اپنی تیاری رکھنی چاہیے تاکہ بروقت کسی طرح کی کمی کا احساس نہ ہو!
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS