سرینگر(صریر خالد،ایس این بی): فوج نے سرینگر میں ایک بڑا حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تین جنگجوؤں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے تاہم جنگجو بتاکر مارے گئے تینوں نوجوانوں کے لواحقین نے انکے بچوں کو فرضی تصادم آرائی میں ختم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انکے بچے کوئی جنگجو نہیں تھے بلکہ وہ ایک سادہ زندگی گذارنے والے طالبانِ علم تھے جو مارے جانے سے چند گھنٹوں قبل تھے اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔
منگل کی شام کو فوج پولس اور سرکاری فورسز کی دیگر ایجنسیوں نے سرینگر-بارہمولہ شاہراہ پر واقعہ ہوکر سر کی بستی کے ایک گھر میں جنگجوؤں کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے وہاں کا محاصرہ کیا تھا جسکے بعد یہاں موجود جنگجوؤں کی جانب سے گولیاں چلائے جانے اور جھڑپ چھیڑنے کا دعویٰ کیا گیا۔رات دیر گئے تک گولیاں چلنے کی آواز آنے کے بعد آپریشن کو صبح تک کیلئے روک دیا گیا تھا اور پھر صبح سویرے گولی باری بحال ہوئی۔بعد ازاں سرکاری فورسز نے مذکورہ مکان کو بموں سے اڑادیا اور تلاشی کے دوران تین جنگجوؤں کی نعشیں ملنے کا دعویٰ کیا گیا۔ان تین ’’جنگجوؤں‘‘ کی شناخت اعجاز مقبول،اطہر مشتاق ساکنانِ پلوامہ اور زُبیر لون ساکن شوپیاں کے بطور ہوئی۔شمالی کشمیر کیلئے ذمہ دار فوج کی کِلو فورس کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی)ایچ ایس ساہی نے بتایا کہ تین جنگجوؤں کو مار گرایا گیا ہے جو شہر میں بڑا حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔
تاہم ان نوجوانوں کے لواحقین نے سرکاری دعویداری کو رد کرتے ہوئے انکے بے گناہ بچوں کو ایک فرضی تصادم آرائی میں ختم کئے جانے کا جوابی دعویٰ کیا۔ہوکر سر میں’’جھڑپ‘‘ختم ہونے کے کچھ ہی وقت بعد جنوبی کشمیر کے تینوں خاندانوں کے کئی لوگ سرینگر آکر پولس کنٹرول روم اور پھر پریس کالونی میں احتجاج کرنے لگے۔
مارے گئے تین نوجوانوں میں سے ایک،اعجاز مقبول،کے بزرگ دادا نے بتایا ’’ہمارا بیٹا ایک عام طالبِ علم تھا،میں حلفاَ کہتا ہوں کہ اُس نے گئے روز صبح دس بجے میرے ساتھ گھر میں چائے پی‘‘۔انہوں نے کہا کہ بعدازاں اعجاز گھر سے کسی کام سے چلا گیا اور آج انہیں بتایا گیا کہ وہ مارا گیا ہے۔ دلچسپ ہے کہ اعجاز خود ایک پولس اہلکار کے بیٹے تھے۔ اعجاز کے والد مقبول گنائی شمالی کشمیر کے ہی گاندربل میں تعینات ہیں۔ اطہر مشتاق اور زُبیر لون کے لواحقین نے بھی احتجاج کرتے ہوئے اُنکے بیٹوں کے بے گناہ ہونے کا دعویٰ کیا۔نم آنکھوں کے ساتھ ان نوجوانوں کے لواحقین نے کہا کہ انکے بچے بارہویں جماعت کیلئے کوچنگ کرنے کی غرض سے سرینگر آئے ہوئے تھے اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ کس طرح اور کہاں سے پکڑے گئے۔اطہر کے ایک چچازاد نے بتایا ’’وہ کوئی مجاہد نہیں تھا بلکہ وہ کوچنگ سنٹر میں داخلہ لینے کیلئے سرینگر آیا ہوا تھا‘‘۔
دلچسپ ہے کہ فوج پر اس وقت فرضی جھڑپ رچاکر تین ’’معصوموں‘‘کو قتل کرنے کا الزام لگا ہے کہ جب پولس نے جنوبی کشمیر کے امشی پورہ میں ہوئی ایک تصادم آرائی سے متعلق فردِ جرم داخل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا ہے کہ 18جولائی کو فوج کی 62راشٹریہ رائفلز کے میجر نے دو مخبروں کی مدد سے تین مزدوروں کو اغوا کرنے کے بعد انہیں ایک فرضی تصادم آرائی میں قتل کیا تھا اور انہیں جنگجو ثابت کرنے کیلئے انکی نعشوں پر اسلحہ رکھا تھا۔ یہ تینوں مزدور راجوری کے رہنے والے تھے جو مزدوری کی غرض سے جنوبی کشمیر کے شوپیاں میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے جہاں سے انہیں اغوا کیا گیا تھا۔ اس واقعہ میں شکار بنائے گئے تینوں لڑکوں کے گھروالوں کو تب پتہ چلا تھا کہ جب جھڑپ کے قریب دو ماہ بعد انہوں نے کہیں نعشوں کی تصاویر دیکھ کر انہیں پہچان لیا تھا اور بعدازاں قبریں کھود کر تینوں کی نعشیں باہر نکالی گئی تھیں۔ اس واقعہ کو لیکر دو ایک دن قبل ہی پولس نے عدالت میں فردِ جرم دائر کی ہے۔
ہوکر سر کے واقعہ میں مارے گئے’’جنگجوؤں‘‘کے لواحقین کے الزامات کو لیکر پولس نے فوری ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے بلکہ پولس نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں تین جنگجوؤں کے مارے جانے کے دعویٰ کی تصدیق کی۔
!لواحقین کا فرضٰ تصادم میں تین طالبانِ علم کو قتل کرنے کا الزام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS