خاورحسن
غالبؔ نے کہا تھا، ’جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ؍ کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی‘۔ یہ سچ ہے، جس سے توقع ہوتی ہے، گلہ بھی اسی سے ہوتا ہے مگر اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ توقع رکھنی کس سے ہے؟ بظاہر اچھا دکھنے والے لوگوں سے توقع رکھ لی جاتی ہے مگر حالات کے بدلتے ہی وہ بھی بدل جاتے ہیں، توقع ٹوٹ جاتی ہے، دل ٹوٹ جاتا ہے اور ٹوٹے ہوئے دل سے نہ دنیا میں سرخ رو ہونا آسان ہے اور نہ آخرت میں کامیاب ہونا ممکن ہے۔ دین و دنیا میں سرخ روئی کے لیے پرامید رہنا ضروری ہے اور آخری سانس تک پرامید رہنا تبھی ممکن ہے جب امید صرف اسی سے ہو جس نے پیدا کیا ہے، محکم یقین صرف اسی پر ہو جس نے سانسیں دی ہیں۔ قرآن میں اللہ کہتا ہے، ’جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (سورہ 2، آیت 156)‘ سوال یہ ہے کہ آدمی ہی جب اللہ کی ’ملکیت‘ ہے اور اسے اللہ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے، پھر اس کے مایوس ہونے کا جواز ہی کہاں رہ جاتا ہے۔اس کے لیے یہ امید ہی بہت ہے کہ لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور یہ امید کسی خوشی یا غم سے متزلز ل نہیں ہو سکتی۔ مصیبت وبا یا کسی مہلک بیماری کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں، وہ امتحان لیتی ہے لیکن کئی لوگ مصیبت کے لیے امتحان بن جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں، اللہ نے کہا ہے، ’ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔(سورہ 23، آیت 62)‘ خوشی اور غم، دکھ اور سکھ، مصیبت اور خوش حالی متعینہ وقت کے لیے آتی ہیں اور وقت کی اچھی بات یہ ہے کہ ٹھہرتا نہیں، گزر جاتا ہے اور اس کے ساتھ یادیں بن جاتے ہیں خوشی اور غم کے لمحات۔
نہ کورونا کی پرانی قسم سے ڈرنے کی ضرورت ہے، نہ نئی قسم سے اور نہ ہی کورونا جیسے حالات سے، البتہ مضر اثرات سے بچنے کے لیے احتیاط کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت یا ریاستی حکومتوں کی جاری کردہ گائڈ لائنس پر عمل کرنا چاہیے، کیونکہ ایمان کی پختگی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اللہ کا نام لے کر آگ ہاتھ میں اٹھا لی جائے اور یہ توقع رکھی جائے کہ آگ جلائے گی نہیں۔ آگ میں جلنے اور جلانے ہی کی تاثیر دی گئی ہے، پھر وہ جلائے گی کیوں نہیں؟ وبا مہلک ہے، پھر موقع ملتے ہی انسانوں کے لیے وہ مہلک کیوں نہیں ثابت ہوگی؟ اکثر لوگوں کو وبا کی سنگینی کا اندازہ اس کے دائرۂ اثر میں آجانے کے بعد ہوتا ہے۔ اسی طرح حالات کی تبدیلی کے اثرانداز ہو جانے پر کئی لوگ اس کی سنگینی کا احساس کرتے ہیں۔ دانشمند لوگ اگر 100 کلومیٹر دور کی ژالہ باری کی خبر سن لیتے ہیں تو پھر وہ ٹھنڈ سے بچنے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کھلی کھلی دھوپ سے دھوکہ نہیں کھاتے۔ غالبؔ کا ایک شعر مشہور ہے، ’مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو؍ کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا‘ ۔ ’مگس‘ مدھو مکھی کو کہتے ہیں، غالب ؔ چاہتے ہیں کہ مدھو مکھی کو باغ میں جانے نہ دیا جائے، ورنہ وہ پھولوں سے رس لے گی، اسے محفوظ کرنے کے لیے چھتے بنائے گی، موم کے اس چھتے سے شمع بنائی جائے گی، پھر اس کے جلنے پر پروانہ اس پر منڈرائے گا اور جل جائے گا۔ کچھ ایسی ہی بات شمالی ہند کے دیہی علاقوں میں اس طرح کہی جاتی ہے ، ’نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔‘ مگر کورونا کو روکنے پر اکثر ملکوں کے لیڈروں نے اسی وقت توجہ نہیں دی جب اس نے ووہان میں تہلکہ مچانا شروع کیا تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں اچھائیاں اور راحتیں ہی ایک ملک سے دوسرے ملک سفر نہیں کرتیں، برائیاں اور مصیبتیں بھی سفر کرتی ہیں۔ جیسے کسی آدمی کی حقیقتیں اس کے حریف پر نظر رکھنے سے سمجھ میں آجاتی ہیں اسی طرح کسی ملک کی حقیقتوں کو سمجھنا اس کے حریف یا دشمن پر نظر رکھنے سے آسان ہو جاتا ہے۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے تائیوان کی تیاریوں سے عالمی لیڈروں نے ووہان کے حالات کا اندازہ کیوں نہیں لگایا؟ وہ خوش فہمی میں مبتلا کیوں تھے، اس سوال کا اطمینان بخش جواب شاید کبھی نہیں مل پائے گا، سیاست میں اہمیت کی حامل بات یہ سمجھی جاتی ہے کہ کون سا سچ دکھانا ہے اور کتنا دکھانا ہے۔ کئی بار جھوٹ ہی سچ بن جاتا ہے اور اس کے پلندے میں سچ کہیں دب کر رہ جاتا ہے۔ دنیا کو بدلنے والے واقعات کا سچ اکثر آدھا ادھورا ہی سامنے آپاتا ہے مگر کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد چین کی شی حکومت کی سرگرمیوں اور گلوان تنازع کو دیکھتے ہوئے شبہات پیدا ہوتے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کورونا کی مار سے کراہ رہی تھی تو چینیوں نے دائرۂ اثر بڑھانے کے لیے قدم کیوں بڑھا دیے؟ کیا اس کی تیاری شی حکومت نے پہلے سے کر رکھی تھی؟
امریکہ نے چین کے خلاف ٹریڈ وار چھیڑ رکھی ہے مگر وہ چین کا قرض دار ہے اور اس پر جاپان کے بعد سب سے زیادہ قرض چین کا ہی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کے لیے ’چینی وائرس‘ اصطلاح استعمال کی تھی مگر اس اصطلاح کے استعمال پر یوروپی ملکوں نے دلچسپی نہیں دکھائی، اس کی وجہ کیا سمجھی جائے؟ برطانوی تھنک ٹینک ’دی سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ‘ کی سالانہ رپورٹ شائع کر دی گئی ہے۔ یہ رپورٹ اس اندازے پر مبنی ہے کہ اقتصادی میدان میں چین 2028 میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا، وہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن جائے گا اور امریکہ دوسرے نمبر پر چلا جائے گا۔ اس ادارے کے مطابق، چین کو یہ کامیابی 5 برس پہلے ملنے کا امکان ہے۔ پہلے یہ کہا گیا تھا کہ 2033 میں ہی وہ امریکہ کو اقتصادی میدان میں پیچھے چھوڑ پائے گا۔
’دی سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ‘ کا قیاس ہے کہ 2021 سے 2025 تک چین کی اوسط شرح نمو 5.7 فیصد رہے گی جبکہ اس کے بعد اس میں کمی آئے گی، چنانچہ 2026 سے 2030 تک چین کی اوسط شرح نمو 4.5 فیصد رہے گی۔ دوسری طرف برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق، 2022 سے 2024 کے درمیان امریکہ کی اوسط شرح نمو کے 1.9 فیصد اور اس کے بعد 1.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ ’دی سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ‘ کے مطابق، چین کو اقتصادی محاذ پر بڑی کامیابی ملنے کی وجہ یہ ہے کہ وبا سے نمٹنے میں اس نے مہارت دکھائی، شروع میں ہی سخت لاک ڈاؤن کیا۔کیا 2028 کا انتظار کیا جانا چاہیے یا اس وقت کے حالات سے نمٹنے کی تیاری ابھی سے شروع کر دینی چاہیے، کیونکہ گلوان تنازع نے ہند سے چین کا خوف آشکارا کر دیا ہے؟
برطانیہ کی یوروپی یونین سے علیحدگی یہ اشارہ ہے کہ حالات بدل رہے ہیں۔ چین اور ایران کے مابین معاہدے ، پھر ایک کے بعد ایک عرب ملکوں کا اسرائیل سے ہاتھ ملانا اور فلسطین کاز کو پیچھے چھوڑ دینا اس بات کا اشارہ ہے کہ حالات بدل رہے ہیں۔ عرب ملکوں کے اسرائیل سے ہاتھ ملانے پر ترکی کی تنقید اور پھر خود اسرائیل سے رشتہ استوار کرنے کی کوشش بھی یہ اشارہ ہے کہ حالات بدل رہے ہیں ۔ بدلتے ہوئے حالات دنیا کے امن پسند لوگوں کے لیے موافق نظر نہیں آرہے۔ اس کے باوجود نئے سال میں مثبت تبدلیوں کی امید رکھنا ضروری ہے۔ اللہ کہتا ہے، ’پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔(سورہ 94، آیت 5)‘ اگلی ہی آیت میں اللہ زور دے کر کہتا ہے، ’بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ (سورہ 94، آیت 6)‘ اس لیے دنیا کے بدلتے حالات میں مصیبتوں کا اندیشہ کہیں نظر آتا ہے تو اس کے ساتھ راحتوں کے امکان کی تلاش بھی وقت رہتے کی جانی چاہیے اور یہ تلاش پرامید ہوکر کی جانی چاہیے، کیونکہ آدمی یہ سوچتا ضرور ہے کہ اسی کی تدبیروں سے تبدیلیاں ہوتی ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں۔ آدمی کی ذہانت کی ایک حد ہے، اس کی تدبیروں کی بھی ایک حد ہے، البتہ اللہ لامحدود ہے۔ اس کا کسی سے موازنہ نہیں، وہی تدبیروں کو کامیاب بنانے والا ہے۔ اللہ کہتا ہے، ’اور اللہ تعالیٰ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔ (سورہ 3، آیت54)‘ چنانچہ حالات کی تبدیلی جب اندیشوں کی وجہ نہیں بن سکتی ہے تو پھر ایمان کی پختگی شبہات دور کرنے میں معاون ضرور بن سکتی ہے!
[email protected]