ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
مدارس دینیہ کی بقا اور ان کا تحفظ نہ صرف مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے بلکہ ہندوستان کی سیکولر روایات اور یہاں کی جمہوری و آ ئینی قدروں کے لیے بھی ممدو معاون ہے۔ مدارس نے ہر دور میں انسانی خدمت اور بقائے باہم کو رواج دیا ہے۔ معاشرتی حقوق وآداب سے واقف کرایا ہے۔ ملک میں امن وامان اور سکون واطمینان کی فضا ہموار کی ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود موجودہ وقت میں مدارس کو کئی طرح کی تحدیات و چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں ایک بڑا مسئلہ اہلیان مدارس کو یہ در پیش ہے کہ کورونا جیسی عالمی وبا اور مہلک بیماری نے جہاں پوری دنیا کی معیشت کو مضمحل کردیا ہے، وہیں ہندوستان کی معیشت کا تو اور برا حال ہے۔ یہاں تو ملک کی جی ڈی پی منفی ہوچکی ہے۔ اس وجہ سے ملک کا نظام معیشت، تجارت و زراعت جیسے شعبے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کاروبار پوری طرح خسارے کی زد میں ہیں۔ بیروزگاری نے بڑے پیمانے پر ملک کی تقریباً ہر گلی اور محلے میں اثر کرلیا ہے۔ گویا ملک کا معاشی نظام اس وقت بہت کمزور ہے اور اس کا اثر ہر خاص و عام پر ہوا ہے۔ لہٰذا اس کی وجہ سے مدارس بھی پوری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کیونکہ مدارس کے اخراجات کا انحصار، چندے پر ہوتا ہے، جسے مخیر حضرات پورا کرتے ہیں۔ اس وقت مدارس دینیہ کے سامنے بڑا مسئلہ ہے کہ مدارس کو معاشی بحران سے کیسے نکلا جائے؟ اسی کا نتیجہ ہے کہ کتنے مدارس نے تو اپنے یہاں سے اساتذہ کو رخصت کردیا ہے۔ چنانچہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تمام اہل خیر حضرات کو انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور مدارس کو مالی بحران سے باہر لانا ہوگا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہیں کہ جہاں یہ تعلیم وتربیت اور اصلاح وتزکیہ کے مرکز ہیں وہیں ہماری نسلوں کے ایمان و یقین کے پہاڑ بھی ہیں اور ان سے نمودار ہونے والی ہماری روحانی و ایمانی شعاعوں کے بھی محافظ ہیں۔ بروقت اس پر توجہ دینا اور اس کا حل تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ مدارس کے بہتر اور شفاف نظام تعلیم سے ہماری تہذیبی اور فکری وعملی قدروں کو جلا مل سکے۔ اب اس کے دوسرے گوشے کی طرف آ تے ہیں، وہ یہ کہ مدارس سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد وابستہ ہے۔ ان میں بہت سارے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنی علمی تشنگی و تڑپ بجھاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بدلتے حالات میں خصوصاً ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں مدارس کی تعلیم و تحقیق اور یہاں کے نصاب و نظام کو کیسے مؤثر اور کارگر بنایا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں بار بار سوال کیا جاتا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ہمارے درمیان مدارس کے نظام و نصاب پر بات کرنے والے افراد دو طرح کے ہیں۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جو مدارس میں دخل اندازی اور دراندازی کرنا چاہتاہے اور یہاں کے روحانی اور پرسوز نظام تعلیم کو اپنے مفاد پرستانہ مشوروں سے درہم برہم کرنا چاہتا ہے، اس کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو نہ مدارس کا خیر خواہ ہے اور نہ ملت کا۔ علاوہ ازیں ایک طبقہ وہ ہے جو مدارس کے نظام کا بھی بہی خواہ ہے اور ملت میں بھی انقلابی و روحانی صور پھونکنے کا متمنی ہے۔ اگر ہم اس طبقہ کی باتوں پر شعوری طور پر غور کریں تو ہمیں اپنے نظام نصاب پر نہ صرف نظر ثانی کرنی ہوگی بلکہ مفید اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ و اصلاح کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ آ ج کا وقت بڑا انقلابی دور سمجھا جارہا ہے۔ نئی نئی ایجادات ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ گویا ایک طرح جہاں علم وفن کا انکشاف ہورہا ہے وہیں انسانی ذہن میں بھی طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل کا ایک بڑا طبقہ ابھی تک اسلام اور دیگر دینی موضوعات کے متعلق شکوک وشبہات میں مبتلا ہے۔ لہٰذا ان کے تمام شبہات کو رفع کرنے کے لیے ہمیں مدارس سے ایسی کھیپ تیار کرنی ہوگی جو جدید فنون سے آراستہ ہو ں اور زمانے کے بدلتے حالات پر بھی گہری نظر ہو۔ اس کے لیے لامحالہ ہمیں اپنے نصاب و نظام تعلیم میں ان چیزوں کو شامل کرنا ہوگا جن کی ضرورت موجودہ وقت میں شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ تبھی ہم دین اسلام کا آفاقی تصور صحیح معنوں میں دنیا کے سامنے پیش کرپائیں گے۔ اسی طرح ایک اور بڑا چیلنج ہمارے سامنے یہ بھی ہے کہ آ ج دنیا میں بہت سارے ادیان و مذاہب ہیں، الگ الگ نظریات ہیں، ان کی اپنی اپنی تعلیمات ہیں، متبعین ہیں۔ مگر ہمارے مدارس میں شاید اس پر غور کیا جاتا ہو کہ ہم ان مذاہب و ادیان کا گہرائی سے مطالعہ کریں۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی نظر یہ اور تہذیب پر پر نقد کرنے کے لیے اس کے بارے میں درست جانکاری ہونا ضروری ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں مطالعہ ادیان کے ماہر اسکالر اور فضلاء بہت کم تیار ہورہے ہیں جبکہ تاریخ میں ایسے بہت سے کردار موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف اسلام کا باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے بلکہ دیگر ادیان کو سمجھنے کے لیے ان کی بنیادی زبان کو بھی سیکھا ہے۔ خود نبی کریمؐ نے حضرت زید کو عبرانی زبان سیکھنے کے لیے حکم دیا۔ ایک اور اہم نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ جب غزوہ بدر میں جو قیدی بن کر آئے۔ حضرت محمد مصطفیؐ نے انہیں بغیر تاوان کے اس وجہ سے رہا کیا کہ وہ ہمارے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے۔ برعکس اس کے آج ایسے ان گنت متشرقین ہیں جنہوں نے اسلام کا مطالعہ بڑی دقت نظر سے کیا ہے۔ اس لیے اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے ہمیں ایسے ماہرین افراد بھی تیار کرنے ہوں گے جو سند و متن کی حیثیت سے پہچانے جائیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں اس طرح کا کوئی بھی منصوبہ ابھی تک تیار نہیں ہوپایا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مدارس کو علاقائی زبانوں کو سیکھنے سکھانے کا بھی نظم کرنا ہوگا۔ ہندوستان جیسے معاشرے میں متعدد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ذرا تصور کیجیے ہمارے مدارس سے فارغ ہونے والے افراد کی کتنی تعداد ایسی ہے جو تمل، ملیالم، سنسکرت اور دیگر زبانوں کی شدبد رکھتی ہوں۔ اس لیے بدلتے حالات میں ہمیں اپنے نظام و نصاب تعلیم پر سنجیدگی سے غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مدارس کے نصاب میں کیا تبدیلی یا اصلاح لائی جائے تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ جو علوم ابدی اور آ فاقی ہیں ان کو بدلنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے البتہ جن مسائل سے ہمیں آ ج واسطہ ہے اور جن کی بنیاد پر اسلام کے اثرونفوذ میں قوت حاصل ہوگی، ان کا شامل کرنا نہایت ضروری ہے۔ یاد رکھئے مدارس ذہنوں اور افکار کی تعمیر کا عمل انجام دے رہے ہیں اور ذہنوں کی تعمیر کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان پر قوموں کا مستقبل منحصر ہے۔ آج کے دور میں بڑی متانت کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نصاب و نظام تعلیم میں ایسی کون سی اصطلاحات لے کر آئیں جن سے ہمارا اصل مقصد بھی دھندلا نہ ہو اور عصری تقاضوں سے بھی ہم آ ہنگ ہو۔ یہ آ ج ہماری دینی اور علمی ضرورت ہے، اس روایت کو آ گے بڑھانا ہوگا۔ سیرت نبویؐ میں ایسی ان گنت مثالیں ہیں جن سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ غیر قوموں اور ان کے علوم و فنون کے سیکھنے اور سکھانے کی طرف خود نبی کریمؐ نے اشارہ کیا ہے۔ زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جو اپنے تعلیم وتحقیق کے سفر کو محدود نہیں کرتی ہیں۔ جہاں سے بھی ملے جس قوم سے بھی کوئی علم و تحقیق کا نکتہ مل جائے وہ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ خیال رکھنا چاہیے کہ درسگاہوں اور دانش گاہوں سے قوموں اور معاشروں کا مستقبل بنتا ہے۔ قوموں کا مستقبل ایوانوں میں نہیں ترتیب دیا جاتا ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کس قدر اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے نظام و نصاب تعلیم پر وقتا فوقتاً غور کرنا ہوگا۔ مدارس نے جو خدمات انجام دی ہیں اور دے رہے ہیں وہ یقینا قابل ستائش ہیں۔ اس کے باوجود اب عصر ی تقاضوں اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب تعلیم میں ایسی قدریں شامل و داخل کرنی ہوں گی جو ہمارے علمی سفر اور اسلامی تہذیب کو موجودہ وقت میں انتہائی بااثر بنا سکیں۔ جن مسائل سے آ ج ہم جوجھ رہے ہیں عہد صحابہ اور تابعین میں یہ حالات یکسر نہیں ہوں گے۔ اس لیے اس وقت کے لحاظ سے تعلیمی نظام کو مرتب کیا گیا تھا۔ اب حالات دوسری طرح کے ہیں، تقاضے بدل چکے ہیں۔ اس لیے ایک بار پھر ہمیں ان مدارس سے ان اسکالر کو تیار کرنا ہوگا جو ہماری ہر موڑ پر رہنمائی کر سکیں۔ اسلام تو بجا طور پر نوع انسانیت کی زندگی کے جملہ شعبوں میں مکمل و مدلل رہنمائی کرتا ہے۔ آ خر ہمارے مدارس میں بھی اسلامی تعلیمات کا درس دیا جاتا ہے تو کیوں نہ ہم ایسے مفکرین، دانشور اور عمائدین تیار کریں جو دینی اور عصری تقاضوں سے پوری طرح لیس ہوں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے ذہنوں میں وسعت پیدا کریں گے۔
[email protected]