زرعی قوانین کے تعلق سے کسان تنظیموں اور حکومت کے مابین تعطل مسلسل جاری ہے۔ کسان تنظیمیں زراعت سے وابستہ تینوں نئے قوانین کو واپس لینے کے مطالبہ پر بضد ہیں، جب کہ حکومت بھی انہیں واپس لینے کے بجائے ترمیم کرنے کے اپنے رُخ پر قائم ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس سے کوئی راستہ نکل نہیں رہا ہے اور تحریک اب اپنے 25ویں دن میں داخل ہوگئی ہے۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ یہ سوال بڑا ہوتا جارہا ہے کہ آخر حکومت اور کسانوں کے مابین صلح کا راستہ نکلے گا کیسے؟
وزیرداخلہ امت شاہ سے لے کر وزیرزراعت نریندر تومر اور حکومت کے کئی وزرا کسانوں سے تحریک کی راہ چھوڑ کر بات چیت سے مسئلہ سلجھانے کی اپیل کرچکے ہیں۔ سیدھے سیدھے نہ سہی، مگر وزیراعظم نریندر مودی بھی کئی عوامی اسٹیج سے کسانوں کو منانے کی کوشش کرچکے ہیں۔ لیکن کسان ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملہ میں دخل دینے سے انکار کرتے ہوئے حکومت اور کسانوں کو بات چیت سے حل نکالنے کا مشورہ دیا ہے۔
لیکن حل نکلے گا تب جب دونوں فریق اپنے موقف سے تھوڑا پیچھے ہٹیں اور درمیان کا راستہ نکالنے کی بنیاد بنائیں۔ یقینا اس کی ذمہ داری حکومت کی ہے، لیکن کسانو ںکو بھی سمجھنا ہوگا کہ ’سارے مطالبات‘ منوائیں گے اور ایسا نہ ہونے تک ڈٹے رہیں گے‘ والا فارمولہ دنیا کی کسی کامیاب تحریک کی بنیاد نہیں بنا ہے۔ ویسے درمیان کا راستہ نکالنے اور کسانوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ہی حکومت بار بار قوانین میں ترمیم کی تجویز دے رہی ہے۔ جس ایم ایس پی کے ایشو پر کسانوں کو سب سے زیادہ اعتراض ہے، اس پر بھی حکومت تحریری طور پر یقین دہانی کرانے کے لیے تیار ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نئے قانون کو بنے چھ ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور ایم ایس پی کا نظام اسی طرح جاری ہے جیسے قانون بننے سے پہلے تھا۔ ایم ایس پی پر خرید بھی انہی منڈیوں سے کی جارہی ہے، جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ نئے قانون آنے کے بعد ختم ہوجائیں گی۔
ایسا بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتظام صرف کسانوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مودی حکومت کی دونوں مدت کار کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں، تو گزشتہ چھ سال میں ایم ایس پی ہی نہیں، خرید کے اعدادوشمار میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ پہلے گیہوں اور دھان پر ہی ایم ایس پی ملتی تھی، لیکن مودی حکومت نے دلہن اور تلہن کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسانوں کا منافع بڑھانے اور کھیتی کو آسان بنانے کے لیے پی ایم کسان سمّان ندھی، فصل بیمہ، سایل ہیلتھ کارڈ، نیم کوٹنگ یوریا جیسی تمام اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ گوداموں اور کولڈ اسٹوریج کی چین کو بھی گاؤں-گاؤں تک پہنچانے کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے کا فنڈ بنایا گیا ہے۔ کسانوں کے مفادات میں اٹھائے گئے ایسے کئی اقدامات کا ذکر وزیر زراعت نریندر تومر کی کسانوں کو لکھے گئے خط میں بھی ہے۔ لیکن بین الاقوامی بازار کا حصہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے سامنے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ جیسے ایم ایس پی کی وجہ سے مکّا، سویابین جیسی کچھ فصلوںمیں مقامی خرید کے مقابلہ میں درآمد سستی پڑتی ہے۔ اس سے پالٹری صنعت اور تیل ملوں کا آپریشن خسارہ کا سودہ بنتا جارہا ہے۔ حکومت کی سوچ ہے کہ کسانوں کی آمدنی صرف ایم ایس پی کے ہی بھروسہ کیوں رہے؟ کیوں نہیں مستقبل کی ضرورتوں کے حساب سے اس کے لیے کچھ نئے متبادل بھی آزمائے جائیں؟ جیسے امریکہ میں ہوتا ہے، جہاں حکومت ویلیو ایڈیشن پر ٹیکس لگاکر اسے سبسڈی کی شکل میں واپس زرعی صنعت کو ہی دے دیتی ہے۔
دوسری طرف کسانوں کا نظریہ ہے، جس کی بنیاد میں سالوں سال کھیتوں میں بہائے گئے خون پسینہ کا زمینی تجربہ ہے اور جسے محض ’سیاسی چھلاوا‘ بتاکر خارج نہیں کیا جاسکتا۔ بیشک حکومت ایم ایس پی پر پرکشش اعدادوشمار پیش کررہی ہو، لیکن اس کے مستقبل سے متعلق کسانوں کا غصہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ بالخصوص ایم ایس پی پر حکومت کی تحریری یقین دہانی والی تجویز نے کسانوں کو مزید شک و شبہ میں ڈال دیا ہے۔ کسانوں کو تشویش اس بات سے متعلق ہے کہ اگر حکومت تحریری یقین دہانی کرسکتی ہے تو اسے قانون میں شامل کرنے میں کیوں ٹال مٹول کررہی ہے؟ جس طرح حکومت نئے قوانین کی حمایت میں اپوزیشن کے مینی فیسٹو کو ڈھال بنارہی ہے، اسی طرح کسان سال 2011میں ایم ایس پی کو قانون بنانے کے بی جے پی کے مطالبہ اور آڑھتیوں کو کسانوں کا اے ٹی ایم بتانے والے دعوے کو آگے کررہے ہیں۔ کسانوں کی دلیل ہے کہ فصل کے دام صرف ڈیمانڈ کی فراہمی کے آسرے نہیں رہنا چاہیے۔ مہنگائی سے عام آدمی کو راحت دینے کے لیے حکومت کئی قدم اٹھاتی ہے، لیکن اس کا بوجھ ملک کا کسان کیوں اٹھائے؟ آخر سبسڈی کا نظام ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ہی تو شروع کیا گیا ہے۔
نئے قوانین سے ملک میں کہیں بھی فصل فروخت کرنے کی آزادی کے سرکاری دعوے پر بھی کسانوں کی اپنی دلیل ہے۔ کسانوںکا کہنا ہے کہ حکومت صرف 6فیصد اناج خریدتی ہے، باقی 94فیصد پیداوار آج بھی بازار میں ہی فروخت ہونے آتی ہے۔ اس لیے اگر حکومت کا مقصد کسانوں کا فائدہ کرنا ہی ہے تو وہ ایم ایس پی کو قانون بنادے تاکہ اگر تاجر اس سے کم پر خریدے تو اسے سزا کا ڈر رہے۔ پھر کسانوں کو اپنی فصل فروخت کرنے کے لیے نہ کہیں دور جانا پڑے گا، نہ منڈیوں میں آڑھتیوں کے بھروسے رہنا پڑے گا۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ نئے قانون سے جو نظام عمل میں آئے گا وہ کسانوں کے نہیں، بلکہ ایگری بزنس کے فائدے کے لیے لایا جارہا ہے۔ کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے امریکی ماڈل کی حمایت کرنے والے سرکاری موقف کی کاٹ کے لیے کسان بھی اسی امریکی ماڈل کو آگے کررہے ہیں، جہاں ایگری بزنس نے کھیتی پر قبضہ کرلیا ہے اور نسلوں سے کھیتی کررہے خاندان ایک فیصد سے کم رہ گئے ہیں۔ ہندوستان میں 60فیصد فیملی کسان ہیں، جنہیں یہ ڈر ستارہا ہے کہ اگر امریکہ جیسے حالات یہاں بنے تو اس کا اثر بڑا دوررس ہوسکتا ہے۔
لیکن ہمارے ملک کی کسانی کے لیے کسی دوسرے ملک کا تجربہ مثال بنے، اس کے لیے نہ سرکاری دلیل عملی نظر آتی ہے، نہ ہی کسانوں کا ڈر واجب لگتا ہے۔ کیوں نہیں اس معاملہ میں ہم سودیشی تجربہ سے مسئلہ کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ کیرالہ ماڈل کی کامیابی کیا کسی مثال سے کم ہے؟ موجودہ تعطل میں بھی ہماری ریاستیں فیصلہ کن کردار نبھا کر مرکز کا بوجھ ہلکا کرسکتی ہیں۔زراعت ریاستوں اور مرکزی حکومت دونوں کا موضوع ہوتا ہے، اس لیے اگر ریاستیں اپنے کسانوں کو سہولت دیں گی تو اسے باہر بھٹکنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اگر ریاستیں بچولیوں کو ختم کردیں گی تو منڈیوں میں ہی کسانوں کو کاروبار کی آزادی مل سکتی ہے۔
کل ملاکر مقصد کسانوں کی زندگی کو خوشحال بنانے کا ہونا چاہیے، جس کی جانب وزیراعظم نریندر مودی اشارہ بھی کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم کی اس سوچ پر کون اعتراض کرے گا کہ ہندوستان کا کسان اب مزید پسماندگی میں نہیں رہ سکتا۔ سوال اس سوچ کو عمل میں لانے کا ہے۔ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ نئے زرعی قوانین اس سمت میں اب تک اٹھائے گئے اقدامات کی ہی توسیع ہے، لیکن کسان اس دعوے پر اعتبار نہیں کرپارہے ہیں، صاف طور پر فرق نظریہ کا ہے جو الگ الگ خیموں میں کھڑے ہوکر نہیں، بلکہ ساتھ بیٹھ کر بات کرنے سے ہی دور ہوگا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
بات چیت سے سلجھے گا تنازع
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS