متنازع زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے کسانوں کے وفد اور مرکزی حکومت کے درمیان دہلی کے وگیان بھون میں طویل مذاکرات جاری ہیں۔ان کا نتیجہ جو بھی برآمد ہولیکن کسانوں کو ہر چہار جانب سے حمایت مل رہی ہے۔ کسان اپنے موقف پر ثابت قدم ہیں اور ان کا ’ ذوق یقین ‘بتارہا ہے کہ زنجیریں بہت جلد کٹنے والی ہیں۔ کل تک اس موضوع پر لب کشائی سے معذور ی کا اظہار کرنے والی ترنمول سپریمو ممتابنرجی نے بھی آج دھمکی آمیز لہجہ میں کہہ دیا ہے کہ کسانوں کے مطالبات نہیں تسلیم کیے گئے تو وہ ملک گیر احتجاج کی مہم شروع کریں گی۔ ادھر پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کی حمایت میں اپنا پدم وبھوشن ایوارڈ(پدم وبھوشن) صدر جمہوریہ کو واپس کر دیا ہے۔اکالی دل لیڈر پرکاش سنگھ بادل کاکہنا ہے کہ مرکزی حکومت کسانوں کے ساتھ دھوکہ کر رہی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کے کاشتکاروں کے ساتھ ہونے والے معاملات سے وہ مجروح ہوئے ہیں۔ صدرجمہوریہ کو لکھے گئے تین صفحات کے خط میں شرومنی اکالی دل کے سرپرست پرکاش سنگھ بادل نے کہا ہے کہ میں اتنا غریب ہوں کہ میرے پاس کسانوں کے لیے قربانی دینے کیلئے اور کچھ نہیں، جو کچھ بھی میںہوں وہ کسانوں کی وجہ سے ہی ہوں۔ اب اگر کسانوں کی توہین کی جارہی ہے، تو پھرمیرا کسی بھی طرح کا احترام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کسانوں کے ساتھ جس طرح کی دھوکہ دہی ہوئی ہے، اس نے انہیں بہت تکلیف دی ہے۔ جس طرح سے کسانوں کی تحریک کو غلط نقطہ نظر سے پیش کیا جارہا ہے وہ تکلیف دہ ہے۔
اسی طرح سابق مرکزی وزیر سکھ دیو سنگھ دھندسا نے بھی زرعی قوانین کے احتجاج میں ’ پدم بھوشن‘ ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہیں یہ ایوارڈ پچھلے سال ہی دیا گیا تھا۔ادھر ٹرانسپورٹرس نے کسانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کسانوں کی حمایت میں ضروری اشیا کی ڈھلائی کا کام ٹھپ کردیں گے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس ) کی دو بڑی کسا ن تنظیموں نے بھی نئے زرعی قانون کو غلط بتایا ہے۔ آر ایس ایس سے وابستہ بھارتیہ کسان سنگھ اور سودیشی جاگرن منچ نے بھی نئے زرعی قوانین سے اختلاف رائے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قوانین میں کمی ہے جنہیں دور کیاجاناچاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ جن قوانین کے فوائد بتانے میں مرکزی حکومت کے ادنیٰ سے اعلیٰ تک سبھی یک زبان ہیں اور ان قوانین کو کسانوں کیلئے ’ وردان ‘ ثابت کرنے پرتلے ہوئے ہیں ان سے ہی وابستہ دو تنظیمیں ان قوانین میں کمیاں نکال کر کیوںاسے کسانوں کے خلاف قراردے رہی ہیں، این ڈی اے کی اتحادی پارٹیاں بھی ایک ایک کرکے ان قوانین کی مخالفت کررہی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے قانون سازی میں کہیں نہ کہیں عجلت سے کام لیا ہے اور کسانوں کے مفاد کو نظر انداز کیا ہے۔
ہندوستان کی مجموعی آبادی میں 58فیصد آبادی کا پیشہ زراعت اور کاشت کاری ہے۔2014کے عام انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کیاتھا کہ وہ فصل کی لاگت کا کم سے کم 50 فیصد ایم ایس پی دے گی اور 2020 میں کسانوں کی آمدنی دوگنی کردے گی۔ان بنیادوں پر کسانوں نے بی جے پی کی کھل کرحمایت کی تھی۔لیکن ہوااس کے برعکس، حکومت نے اچانک زراعت سے متعلق تین قوانین بناڈالے اور وبائی بحران کے دوران انتہائی عجلت میں اسے پاس بھی کرا لیا۔ برسہابرس سے حکومت کسانوں کو ایم ایس پی کے ذریعہ فصل کی یقینی قیمت دیتی رہی تھی جس کی وجہ سے انہیں یقین ہوتاتھا کہ وہ اپنی فصل بیچ پائیں گے۔ پرانے قانون کے مطابق کسانوں کو اپنی پیداوار کرشی بازاروں میں نیلامی کے ذریعہ بیچنے کا انتظام تھا جہاں انہیں فصل کی کم از کم گارنٹیڈ قیمت ملتی تھی اور وہاں خریدارطے کرنے کی پابندی کے ساتھ ساتھ ضروری سامانوں کی قیمت کنٹرول کرنے کا بھی انتظام تھا لیکن اس نئے قانون میں کہاگیا ہے کہ کسان سے ان کی فصل کوئی بھی کہیں بھی خرید سکتا ہے۔مودی حکومت کاکہنا ہے کہ بازار میں جاری مسابقت کے دوران اس اقدام سے کسانوں کو ان کی پیداوار کی بہتر قیمت مل سکتی ہے اور کسان کرشی بازار کی بجائے پورے ملک کے بازار میںا پنا سامان بیچ سکتے ہیں۔اس اقدام سے زراعت میں سرمایہ کاری بھی ہوگی اور معیشت کو بہتر بنایاجاسکے گا۔لیکن کسان حکومت کے اس موقف کو یکسر مسترد کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے صرف بڑے کارپوریٹس کو ہی فائدہ ہوگا اور وہ کل پیداوار قیمت کم ترین سطح پر رکھیں گے اور مجبور کسان ان کے غلام بن جائیں گے۔ کسانوںنے ان قوانین پراپنے اعتراضات بہت صاف ا ور واضح طور پر بیان کیے ہیںاورتینوں زرعی قوانین کو واپس لینے، کم از کم حمایتی قیمت(ایم ایس پی) کی تحریری یقین دہانی کے ساتھ ساتھ اپنے سات مطالبات پیش کیے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلاکر اس قانون کو ختم کرائے۔
ان سطور کے لکھے جانے تک مذاکرات جاری ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ کسی ایک بات پر اتفاق رائے قائم ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل کہ کسانو ں کی اس تحریک کو ملنے والی حمایت بھی حکومت کیلئے پریشانی کا سبب بنے حکومت کسانوں کے مطالبات پر ہمدردانہ غور وخوض کرتے ہوئے انہیں راضی کرلے۔
[email protected]
کسانوں کا ذوق یقین
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS