انقرہ:ترکی کی سب سے بڑی عدالت نے سنہ 2016 میں بغاوت کی کوشش کرنے والے 337 افراد کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔ سزا پانے والوں میں فوجی افسران اور دیگر افراد شامل ہیں۔ ترک فضائیہ کے پائلٹس اور بری فوج کے کمانڈروں سمیت تقریباً 5 سو افراد کو ان الزامات کا سامنا تھا کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہ رہے تھے۔ ان فوجی افسران پر الزام ہے کہ انھوں نے یہ منصوبہ دارالحکومت انقرہ کے نزدیک ہوائی اڈے’اکنچی‘میں ترتیب دیا تھا۔ ترک صدر کا موقف ہے کہ امریکہ میں مقیم ترک عالم دین فتح اللہ گولن اس سازش کے منصوبہ ساز تھے۔ فتح اللہ گولن جولائی 2016 میں ہونے والی بغاوت کی اْن کوششوں میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں جن میں 251 افراد ہلاک اور 2 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ جس وقت حکومت گرانے کی سازش رچی گئی اس وقت اردوغان چھٹیوں پر تھے اور کسی پرفضا مقام پر موجود تھے۔ جولائی کی اس رات جب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں پر عملدرآمد شروع ہوا تو ہزاروں ترک شہریوں نے اردوغان کی حمایت میں ریلیاں نکالیں، سازش پر عملدرآمد یقینی بنانے والے ترک فوجیوں کا مقابلہ کیا اور انھیں اقتدار پر قبضہ کرنے سے روکا۔ اگلے سال یعنی اگست 2017 میں اس حوالے سے مقدمات کا آغاز ہوا اور ملزمان پر صدر اردوغان کو قتل کرنے اور اہم حکومتی اداروں پر قبضہ کرنے کے الزام عائد کیے گئے۔ اس مقدمے کی سماعت ترکی کی سب سے بڑی اور اہم عدالت میں ہوئی جہاں فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
ترک فضائیہ کے سابق صدر آکن اوزترک کو اسی منصوبے میں ملوث ہونے پر گزشتہ سال عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ گزشتہ روز سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ جیٹ طیارہ ایف 16 اڑانے والے ترک فضائیہ کے 25 پائلٹوں نے انقرہ میں پارلیمان کی عمارت کو 3 بار نشانہ بنایا اور اس کے علاوہ بھی اہم سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا۔ اس بمباری میں 68 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ جن افراد کو سزا سنائی گئی تھی ان میں فوجی جنرل بھی شامل تھے۔ 10 سے زیادہ فوجی افسران اور 4 شہریوں کو عمر قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 6 افراد کو ان کی عدم موجودگی میں سزا سنائی گئی ہے جن میں فتح اللہ گولن کا نام بھی شامل ہے۔ صدر اردوغان نے فتح اللہ گولن کی بنائی ہوئی حزمت نامی تحریک کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا تھا۔ فتح اللہ گولن ماضی میں صدر اردوغان کے قریبی ساتھی رہے ہیں لیکن جولائی 2016 کے واقعات کے بعد سے وہ امریکی ریاست پنسلوینیا میں مقیم ہیں اور ترکی نے امریکہ سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ بغاوت کی کوشش کے بعد سے صدر اردوغان نے ملک میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں جن میں ریاستی اداروں سے ان افراد کو نکال دیا جن پر شک تھا کہ ان کے فتح اللہ گولن کے ساتھ روابط ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد مقدمات ہو چکے ہیں اور عدالتوں نے اب تک 2500 سے زیادہ عمر قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
ترکی : 2016 کی بغاوت کے معاملے میں فوجی افسران سمیت 337 کو عمر قید
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS