وطن عزیز ہندوستان پچھلے تین دنوں میں تین بڑی شخصیتوں سے محروم ہوگیا۔ 23 نومبر کو آسام کے سابق وزیراعلیٰ ترون گوگوئی کا دیہانت ہوا، 24 نومبر کی شب میں 10 بجے معروف عالم دین مولانا کلب صادق نے آخری سانسیں لیں جبکہ 25 نومبر کو شب میں 3 بج کر 30 منٹ پر کانگریس کے سینئر لیڈر احمد پٹیل کا انتقال ہو گیا۔ یہ تینوں ہی شخصیتیں نام و نمود سے دور ملک کی فلاح و بہبود کے لیے وقف رہیں۔ آج جبکہ کئی لیڈران اشتعال انگیز بیانات، ایک فرقے کی خوشنودی کے لیے دوسرے فرقے کی دل آزاری اور حریف پارٹیوں کے لیڈروں کے خلاف بولنے کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، ترون گوگوئی اور احمد پٹیل نے مریادا پروشوتم کے دیش میں سیاسی مریادا کا پورا خیال رکھا، سیاست میں کچھ پالینے کی خواہش میں مریادا کی لکشمن ریکھا کو کبھی پار نہیں کیا، میڈیا سے کسی حد تک دوری بناکر رکھی۔ اس کے باوجود وہ خبروں میں رہا کرتے تھے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ کانگریس میں گاندھی فیملی کے ارکان کے بعد اہمیت کے حامل لیڈروں میں احمد پٹیل کا نام نمایاں ہے لیکن ان کی سادگی دیکھ کر ان کے قد کا اندازہ لگانا کسی کے لیے بھی مشکل ہوتا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یا تو وہ دلی میں رہتے ہیں یا گجرات کے اپنے گاؤں پیرامل میں۔ اس گاؤں میں رہنے والا کوئی ہندو ہو، مسلمان، پارسی یادیگر مذاہب کا ماننے والا، ان کے لیے سینئر کانگریسی لیڈر ’احمد بھائی‘ ہی تھے۔ یہ احمد پٹیل کی واقعی بڑی کامیابی تھی کہ سیاست میں رہ کر گندی راج نیتی سے وہ بچ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں ’احمد بھائی‘ کہہ کر تعزیت پیش کی ہے تو دوسری طرف سونیا گاندھی نے تعزیت پیش کرتے ہوئے انہیں ’ساتھی اور دوست‘ بتایا ہے۔ راہل گاندھی نے بجاطور پر لکھا ہے کہ ’ وہ کانگریس کے لیے جیے اور کانگریس کے لیے انہوں نے سانسیں لیں اور مشکل اوقات میں پارٹی کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے۔‘ راہل کا یہ کہنا بجا ہے کہ وہ کانگریس کا ایک ستون تھے لیکن احمد پٹیل کا انتقال کانگریس پارٹی کا ہی نقصان نہیں ہے، یہ ملک کا نقصان ہے، کیونکہ احمد پٹیل جیسا لیڈر روز روز پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی موت پر تقریباً ہر پارٹی کے لیڈروں نے جن لفظوں میں احترام اور تعزیت کا اظہار کیا ہے، اس سے یہ بات پھر ثابت ہوتی ہے کہ آپ جوڑنے والے لیڈر تو بنئے، خواہ مخواہ کی بیان بازی سے گریز تو کیجیے، آپ کی قدر پورا ہندوستان کرے گا، آپ کے تئیں محبت و احترام میں تفریق کی حدیں مٹ جائیں گی۔
احمد پٹیل نے سیاسی مخالفت کو سیاست تک محدود رکھا، اس کے اثرات سے ذاتی تعلقات کو محفوظ رکھا۔ اپنے کام سے کام رکھا، پارٹی اعلیٰ کمان کی خواہ مخواہ کی نکتہ چینی سے گریز کیا۔ زیادہ شہرت کی خواہش نہیں کی، میڈیا کے چکر میں نہیں پڑے، بیانات دیتے وقت لفظوں کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کیا، اس فہم کے ساتھ کیا کہ لفظوں کی دھار کئی بار تلوار کی دھار سے کم نہیں ہوتی، اس لیے کانگریس کی حریف پارٹیوں کے لیڈروں کی بھی ان سے دشمنی نہیں رہی، کسی کا ان سے نظریاتی اختلاف رہا ہو تو بات الگ ہے۔ نظریاتی اختلاف ملک و معاشرے کی ارتقا کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے۔نظریاتی اختلاف کو مولانا کلب صادق بھی غلط نہیں سمجھتے تھے، البتہ وہ کسی سے دشمنانہ رشتہ رکھنے کے قائل کبھی نہیں رہے۔ انہوں نے پوری زندگی بھائی چارے کے فروغ کے لیے وقف کردی ، مسلمانوں کے خانے میں بٹ جانے کے وہ خلاف تھے۔ اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ہی وہ چاہتے تھے کہ سنی اور شیعہ ساتھ نماز پڑھیں، چنانچہ مولانا کلب صادق کو صرف ’شیعہ عالم‘ کہنا، ان سے انصاف نہیں ہوگا۔ وہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کے رہنما تھے۔ مذہب کے نام پر بانٹنے کا شائبہ بھی ان میں کبھی نظر نہیں آیا۔ ان کی یہ کوشش رہی کہ مسلمان تعلیم حاصل کریں تاکہ حالات ان کی فہم سے بالاتر نہ ہوں، وہ حالات کے مطابق اپنے قول و عمل کا اظہار کریں۔ عام طور پر علم کو دو خانوں میں بانٹ کر دینی علم اور دنیاوی علم کی بات کی جاتی ہے مگر مولانا کلب صادق کا یہ کہنا بجا تھا کہ کوئی علم غلط نہیں ہوتا، اس کا استعمال غلط یا صحیح ہوتا ہے۔ علم کو آخرت کے لیے بھی نفع بخش بنانے کی خاطر اس کے صحیح استعمال پر توجہ دینی چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج وطن عزیز ہندوستان کو مولانا کلب صادق جیسے ہی علمائے دین کی ضرورت ہے جو مکتب و مسلک سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں کو متحد کرنے، انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے جدوجہد کریں تو اپنے ملک کی خوشحالی اور اس کے استحکام کے لیے تفرقے کی حدوں کو توڑنے کے جذبے کا اظہار بھی کریں جو امریکہ کے سابق صدر کنیڈی کی طرح یہ سکھائیں کہ یہ نہ دیکھو کہ تمہارا ملک تمہیں کیا دیتا ہے، یہ دیکھو کہ تم اپنے ملک کو کیا دے رہے ہو، کیونکہ تمہاری کامیابی سے ملک کی کامیابی جدا نہیں ہے!
[email protected]
تین سوگوار دن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS