بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج کا جہاں مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جارہا ہے اور تجزیہ کیا جارہا ہے وہیں اس پہلو سے بھی بحث ہورہی ہے کہ نئی اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کم کیسے ہوگئی؟ جب عوامی ایشوز اور غیرضروری بیان بازی پر الیکشن لڑا گیا‘ فرقہ پرستی کی سیاست کم ہوئی تو کثیر آبادی والے حلقوں سے مسلم امیدوار بڑی تعداد میں کیوں نہیں کامیاب ہوسکے؟ کم از کم اتنے امیدوار کامیاب ہوتے جتنے 2015 کے اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ ایک تو کم مسلم امیدوار کامیاب ہوئے۔ دوسرے این ڈی اے کے ٹکٹ پر ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ نتیش سرکار میں اقلیتی بہبود کے وزیر خورشید احمد بھی ہار گئے۔ نئی نتیش کابینہ میں جگہ پانے کے لئے ایک بھی مسلم چہرہ منتخب نہیں ہوا۔ شاید یہ خلاکسی مسلم ایم ایل سی سے پوری کی جائے۔ سرکار میں مسلم نمائندگی کے لئے نتیش کمار کے سامنے 2010 جیسی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اس وقت بھی جنتادل متحدہ کے ٹکٹ پر ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوا تھا۔
ایسی بات نہیں ہے کہ انتخابی میدان میں مسلم امیدوار کم تھے۔ بی جے پی کو چھوڑ کر جنتادل متحدہ، راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور ایم آئی ایم نے کئی درجن مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا۔ آزاد امیدوار بھی کھڑے تھے۔ اس طرح بڑی تعداد میں مسلم امیدواروں نے کثیر مسلم آبادی والے حلقوں سے الیکشن لڑا تھا لیکن صرف 19 مسلم امیدوار ہی کامیاب ہوسکے جبکہ سابقہ اسمبلی الیکشن میں 24 کامیاب ہوئے تھے۔ اگر حلقوں میں ان کی آبادی کے تناسب کو دیکھیں تو ساڑھے تین درجن سے زیادہ مسلمانوں کو کامیاب ہونا چاہئے لیکن دیڑھ درجن میں ہی وہ سمٹ گئے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ریاست میں مسلم ووٹ بڑے پیمانے پر تقسیم ہوئے ہیں اور مسلم امیدواروں نے دوسروں کا ووٹ حاصل کرنے کے بجائے اپنے ہی ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کیا۔ مسلم رائے دہندگان حقیقی صورت حال کو سمجھ نہیں سکے اور اپنے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دے کر اپنے ووٹ ہی کو ضائع کردیا۔ یہ ملک میں مسلمانوں کی پہلی غلطی یا پہلا تجربہ نہیں ہے۔ ہر الیکشن میں وہ یہی کرتے ہیں اور بعد میں اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ الیکشن میں مسلمان کم کامیاب ہوئے وہ اپنی غلطی یا تجربہ سے نہیں کے برابر سبق حاصل کرتے ہیں۔ کہاں مسلمانوں کے تعلق سے یہ شورمچایا جاتا ہے کہ ان کی آبادی بڑھ رہی ہے اور کہاں پارلیمنٹ و اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی کم ہونے سے وہ سیاست میں بے وزن ہوتے جارہے ہیں۔
اس بار بہار اسمبلی انتخابات میں عبدالباری صدیقی جیسے قدآور لیڈر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ درجنوں مسلم امیدوار ریاست کے سیمانچل، متھلانچل، کوسی اور چمپارن میں آپس میں لڑ کر اور ووٹ تقسیم کرکے ہار گئے۔ مسلم امیدوار تو ہار گئے اب انہیں ہر انے کا کام کرنے والے مسلمان ایک دوسرے کو کوستے پھر رہے ہیں جس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ اسمبلی الیکشن میں مسلم امیدواروں کی ہار سے عظیم اتحاد کو کافی نقصان پہنچا جسے مسلم رائے دہندگان سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ اس کے ووٹ بینک کو ’مائی‘ کہا جاتا ہے لیکن ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کی پارٹی کو کافی فائدہ پہنچا۔ اس کے 5 امیدوار کامیاب ہوگئے اور نئی اسمبلی میں ایم آئی ایم چھٹی بڑی پارٹی بن گئی۔ اس کے کئی امیدوار دوسرے نمبر پر آئے۔ اس طرح ریاست میں پارٹی کو کافی ووٹ ملے جس سے اس کے حوصلے بلند ہیں۔ پارٹی یہ تجربہ دوسری ریاستوں کے مسلم اکثریتی حلقوں میں کرسکتی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ ایم آئی ایم مغربی بنگال، آسام اور اترپردیش کا رخ کرے اور وہاں بھی مسلم ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اسی طرح کی سیاست کرے یا وہی حربہ اختیار کرے جو اس نے بہار اسمبلی انتخابات میں کیا اور وہاں وہ کچھ سیٹیں حاصل کرلے۔ پارٹی نے پہلے کے مقابلہ میں اپنی انتخابی حکمت بدل دی ہے۔ اب وہ مقامی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے الیکشن لڑرہی ہے جس کا اسے فائدہ مل رہا ہے۔ پہلے وہ تنہا لڑتی تھی اس لئے اسے فائدہ نہیں ہورہا تھا۔ حالیہ عرصے میں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں جس طرح مسلمانوں کی نمائندگی گھٹ رہی ہے۔ اس سے وہ سیاست میں حاشیہ پر جاسکتے ہیں اور ان کا وزن کم ہوسکتا ہے۔ جسے وہ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ان کی آواز اٹھانے کے لئے وہاں خاطرخواہ نمائندگی بہت ضروری ہے۔ پہلے وہ ووٹ بینک بنے رہے اور اب مسلم سیاست میں الجھ رہے ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کا ووٹ پاکر سیاسی پارٹیاں ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں اور مسلمان پسماندہ ہوتے جارہے ہیں۔
[email protected]
مسلم نمائندگی میں گراوٹ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS