امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کیلئے ووٹنگ جاری ہے ۔اس صدارتی انتخاب میں عوام کی جانب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ضروری نہیں کہ ملک کا نیا صدر بنے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عام ووٹر نہیں کرتے، بلکہ یہ کام الیکٹورل کالج کا ہے۔
الیکٹورل کالج کیا ہے، جس کے لیے امریکی ووٹ ڈالتے ہیں؟
امریکی صدارتی انتخاب میں سب سے اہم اور پیچیدہ ادارہ الیکٹورل کالج ہے۔ بنیادی طور پر الیکٹورل کالج ایک ایسا ادارہ ہے، جو صدر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کالج کے ارکان جنھیں الیکٹر بھی کہا جاتا ہے، عوام کے ووٹوں سے جیتتے ہیں۔یعنی جب امریکی عوام صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو دراصل وہ ایسے افراد کیلئے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں، جو مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں اور ان کا کام ملک کے صدر اور نائب صدر کو چننا ہے۔نومبر کے پہلے ہفتے میں منگل کے روز ہونے والی ووٹنگ اصل میں ان الیکٹرز کیلئے ہوتی ہے، جو حتمی طور پر صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہر ریاست میں ووٹنگ کے وقت اصل میں ووٹر، جس بیلٹ پیپر کے ذریعے اپنا ووٹ دیتے ہیں، اس پر درج ہوتا ہے، ’الیکٹرز برائے (امیدوار کا نام)‘۔یہ الیکٹرز منتخب ہونے کے بعد دسمبر کے مہینے میں اپنی اپنی ریاست میں ایک جگہ اکٹھے ہو کر صدر کے چناؤ کیلئے ووٹ ڈالتے ہیں۔ماضی میں یہ الیکٹرز اپنی مرضی سے بھی ووٹ ڈال سکتے تھے، لیکن اب قانونی طور پر یہ الیکٹرز صرف اسی امیدوار کیلئے ووٹ ڈال سکتے ہیں، جس کے نام پر انھوں نے ووٹ لیے ہیں۔
الیکٹورل کالج کیسے کام کرتا ہے؟
امریکہ کی ہر ریاست میں الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے طے ہوتی ہے جبکہ الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے۔ہر ریاست کی کانگریس میں جتنی سیٹیں ہوتی ہیں اور اس کے جتنے سینیٹر سینیٹ میں ہوتے ہیں، اتنے ہی اس کے الیکٹورل کالج میں الیکٹرز ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کسی ریاست کی کانگریس میں 10 سیٹیں ہیں اور اس کی 2 سیٹیں سینیٹ میں ہیں تو اس ریاست سے الیکٹورل کالج میں جانے والے الیکٹرز کی کل تعداد 12 ہوگی۔امریکہ میں ریاست کیلیفورنیا کے سب سے زیادہ یعنی 55 الیکٹرز ہیں، جبکہ کم آبادی والی ریاستوں جیسے کہ وایومنگ، الاسکا یا شمالی ڈکوٹا میں ان کی تعداد3 ہے، جو کہ کسی بھی ریاست کیلئے کم سے کم مقرر کردہ تعداد ہے۔امریکہ کا صدر بننے کیلئے کسی بھی امیدوار کو 538 میں سے 270 یا اس سے زیادہ الیکٹرز کی حمایت درکار ہوتی ہے۔عموماً ریاستیں اپنے تمام الیکٹورل کالج ووٹ اسی امیدوار کو دیتی ہیں، جسے ریاست میں عوام کے زیادہ ووٹ ملے ہوں۔مثال کے طور پر اگر ریاست ٹیکساس میں ریپبلکن امیدوار نے 50.1 فیصد ووٹ لیے ہیں تو ریاست کے تمام 38 الیکٹورل ووٹ اس امیدوار کے نام ہو جائیں گے۔صرف مین اور نبراسکا 2ایسی ریاستیں ہیں، جو اپنے الیکٹورل کالج ووٹ امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے تقسیم کرتی ہیں۔ (باقی این سی آر پر)
اسی لیے صدارتی امیدوار ان ریاستوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، جنھیں ’سوئنگ اسٹیٹس‘ یا ’ڈانواڈول ریاستیں‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی ریاستیں ہیں، جہاں نتائج میں پلڑا کسی بھی امیدوار کا بھاری ہو سکتا ہے۔صدارتی امیدوار جتنی زیادہ ریاستیں جیتتے ہیں، اس کے الیکٹورل ووٹ انھیں وہائٹ ہاؤس کے قریب تر لے جاتے ہیں۔
کیا امیدوار عوامی ووٹ کی اکثریت حاصل کر کے بھی صدارت سے محروم رہ سکتے ہیں؟
جی ایسا بالکل ممکن ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ کوئی امیدوار قومی سطح پر ووٹرز میں سب سے زیادہ مقبول رہا ہو، لیکن وہ صدر بننے کیلئے درکار 270 الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکے۔درحقیقت امریکہ میں گزشتہ 5میں سے 2 صدارتی انتخاب ایسے امیدواروں نے جیتے، جنھیں ملنے والے عوامی ووٹوں کی تعداد ہارنے والے امیدوار سے کم تھی۔2016 میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن سے 30 لاکھ ووٹ کم حاصل کیے تھے، لیکن وہ صدر بنے، کیونکہ انھوں نے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کی۔ 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے 271 الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، جبکہ صدارتی انتخاب میں ناکام رہنے والے ان کے مدمقابل ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور کو ان سے 5 لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے۔اس کے علاوہ صرف 3 امریکی صدور ایسے ہیں، جو پاپولر ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بنے اور یہ سب 19ویں صدی میں ہوا، جب جان کوئنسی ایڈمز، ردرفرڈ بی ہیز اور بنجامن ہیریسن صدر بنے۔
اس نظام کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
جب 1787 میں امریکی آئین تیار کیا جا رہا تھا تو صدر کا ایک قومی سطح پر مقبول ووٹ سے انتخاب ناممکن ہی تھا۔ وجہ ملک کا بڑا رقبہ اور مواصلات میں مشکلات تھیں۔اسی دور میں اس بارے میں بھی زیادہ موافق رائے نہیں تھی کہ واشنگٹن ڈی سی میں قانون سازی کرنے والوں کو صدر کے انتخاب کا حق دے دیا جائے۔اس صورتحال میں آئین بنانے والوں نے الیکٹورل کالج تشکیل دیا، جس میں ہر ریاست الیکٹرز کا انتخاب کرتی ہے۔چھوٹی ریاستوں کو یہ نظام پسند آیا، کیونکہ اس سے صدر کے انتخاب میں ان کا کردار عام ووٹنگ کے مقابلے میں زیادہ موثر تھا۔الیکٹورل کالج کا خیال ملک کی جنوبی ریاستوں میں بھی پسند کیا گیا، جہاں کی آبادی کا بڑا حصہ اس وقت غلاموں پر مشتمل تھا۔ (اگرچہ غلاموں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا، لیکن اس وقت مردم شماری میں انھیں شمار ضرور کیا جاتا تھا اور ایک آزاد فرد کے مقابلے میں غلام کو 3/5 گنا جاتا تھا)۔چونکہ امریکی صدر کے انتخاب کیلئے درکار الیکٹورل ووٹوں کی کسی ریاست میں تعداد کا انحصار اس کی آبادی پر ہوتا ہے، اس لیے جنوبی ریاستوں کو اس نظام کے تحت صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے کا زیادہ موقع مل رہا تھا۔
کیا الیکٹرز کیلئے عام ووٹنگ میں فاتح امیدوار کو ہی ووٹ دینا ضروری ہے؟
کچھ ریاستوں میں الیکٹرز اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں، چاہے عوام نے اسے جتوایا ہو یا نہیں، لیکن عام طور پر الیکٹرز اسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، جسے ان کی ریاست کے عوام نے زیادہ ووٹ دیے ہوں۔اگر الیکٹرز اپنی ریاست کے عوام کے چنندہ امیدوار کو ووٹ نہ دیں تو انھیں ’فیتھ لیس‘ یا عقیدے سے عاری کہا جاتا ہے۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں 7 الیکٹورل کالج ووٹرز نے ایسا کیا، لیکن ان کے اس اقدام کا نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
اگر کسی امیدوار کو اکثریت نہ ملے تو کیا ہوتا ہے؟
ایسی صورتحال میں ایوانِ نمائندگان صدر کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالتا ہے۔ایسا صرف ایک مرتبہ ہوا ہے، جب 1824 میں الیکٹورل ووٹ 4 امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوئے اور کسی کو اکثریت نہیں مل سکی۔اب جبکہ امریکی سیاست میں صرف 2 جماعتوں کا بول بالا ہے، ایسا دوبارہ ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
اسی لیے صدارتی امیدوار ان ریاستوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، جنھیں ’سوئنگ اسٹیٹس‘ یا ’ڈانواڈول ریاستیں‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی ریاستیں ہیں، جہاں نتائج میں پلڑا کسی بھی امیدوار کا بھاری ہو سکتا ہے۔صدارتی امیدوار جتنی زیادہ ریاستیں جیتتے ہیں، اس کے الیکٹورل ووٹ انھیں وہائٹ ہاؤس کے قریب تر لے جاتے ہیں۔
کیا امیدوار عوامی ووٹ کی اکثریت حاصل کر کے بھی صدارت سے محروم رہ سکتے ہیں؟
جی ایسا بالکل ممکن ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ کوئی امیدوار قومی سطح پر ووٹرز میں سب سے زیادہ مقبول رہا ہو، لیکن وہ صدر بننے کیلئے درکار 270 الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکے۔درحقیقت امریکہ میں گزشتہ 5میں سے 2 صدارتی انتخاب ایسے امیدواروں نے جیتے، جنھیں ملنے والے عوامی ووٹوں کی تعداد ہارنے والے امیدوار سے کم تھی۔2016 میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن سے 30 لاکھ ووٹ کم حاصل کیے تھے، لیکن وہ صدر بنے، کیونکہ انھوں نے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کی۔ 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے 271 الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، جبکہ صدارتی انتخاب میں ناکام رہنے والے ان کے مدمقابل ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور کو ان سے 5 لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے۔اس کے علاوہ صرف 3 امریکی صدور ایسے ہیں، جو پاپولر ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بنے اور یہ سب 19ویں صدی میں ہوا، جب جان کوئنسی ایڈمز، ردرفرڈ بی ہیز اور بنجامن ہیریسن صدر بنے۔
اس نظام کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
جب 1787 میں امریکی آئین تیار کیا جا رہا تھا تو صدر کا ایک قومی سطح پر مقبول ووٹ سے انتخاب ناممکن ہی تھا۔ وجہ ملک کا بڑا رقبہ اور مواصلات میں مشکلات تھیں۔اسی دور میں اس بارے میں بھی زیادہ موافق رائے نہیں تھی کہ واشنگٹن ڈی سی میں قانون سازی کرنے والوں کو صدر کے انتخاب کا حق دے دیا جائے۔اس صورتحال میں آئین بنانے والوں نے الیکٹورل کالج تشکیل دیا، جس میں ہر ریاست الیکٹرز کا انتخاب کرتی ہے۔چھوٹی ریاستوں کو یہ نظام پسند آیا، کیونکہ اس سے صدر کے انتخاب میں ان کا کردار عام ووٹنگ کے مقابلے میں زیادہ موثر تھا۔الیکٹورل کالج کا خیال ملک کی جنوبی ریاستوں میں بھی پسند کیا گیا، جہاں کی آبادی کا بڑا حصہ اس وقت غلاموں پر مشتمل تھا۔ (اگرچہ غلاموں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا، لیکن اس وقت مردم شماری میں انھیں شمار ضرور کیا جاتا تھا اور ایک آزاد فرد کے مقابلے میں غلام کو 3/5 گنا جاتا تھا)۔چونکہ امریکی صدر کے انتخاب کیلئے درکار الیکٹورل ووٹوں کی کسی ریاست میں تعداد کا انحصار اس کی آبادی پر ہوتا ہے، اس لیے جنوبی ریاستوں کو اس نظام کے تحت صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے کا زیادہ موقع مل رہا تھا۔
کیا الیکٹرز کیلئے عام ووٹنگ میں فاتح امیدوار کو ہی ووٹ دینا ضروری ہے؟
کچھ ریاستوں میں الیکٹرز اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں، چاہے عوام نے اسے جتوایا ہو یا نہیں، لیکن عام طور پر الیکٹرز اسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، جسے ان کی ریاست کے عوام نے زیادہ ووٹ دیے ہوں۔اگر الیکٹرز اپنی ریاست کے عوام کے چنندہ امیدوار کو ووٹ نہ دیں تو انھیں ’فیتھ لیس‘ یا عقیدے سے عاری کہا جاتا ہے۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں 7 الیکٹورل کالج ووٹرز نے ایسا کیا، لیکن ان کے اس اقدام کا نتیجے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
اگر کسی امیدوار کو اکثریت نہ ملے تو کیا ہوتا ہے؟
ایسی صورتحال میں ایوانِ نمائندگان صدر کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالتا ہے۔ایسا صرف ایک مرتبہ ہوا ہے، جب 1824 میں الیکٹورل ووٹ 4 امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوئے اور کسی کو اکثریت نہیں مل سکی۔اب جبکہ امریکی سیاست میں صرف 2 جماعتوں کا بول بالا ہے، ایسا دوبارہ ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔