ملک میں بے روزگاری کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس کی رپورٹیں کسی نہ کسی شکل میں برابر آتی رہتی ہیں۔ خواہ وہ روزگار دینے کے مطالبہ پر دھرنے اور مظاہرے کی صورت میں ہو یا سرکاری ویکنسی نکلنے پر اس کے لیے درخواست دینے والے لاکھوں امیدوار کی صورت میں، ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے ڈیٹا ہوں یا سرکار کی طرف سے روزگار کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے کوئی پورٹل بنانے یا روزگار میلہ میں بھیڑ کی صورت میں بے روزگاری کے تعلق سے سرکاری رپورٹیں بہت کم آتی ہیں، البتہ پرائیویٹ اداروں اور ایجنسیوں کی رپورٹیں جب بھی آتی ہیں، ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی صورت حال کافی سنگین ہے۔ تازہ رپورٹ نیشنل سمپل سروے آفس کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سال 2017-18 میں 11ریاستوں میں بے روزگاری کی شرح اس قومی اوسط 6.1فیصد سے زیادہ تھی جو ویسے ہی گزشتہ 45برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ سوال صرف ملازمتیں نہ ملنے کا نہیں ہے بلکہ نوکریاں چلی جانے کا بھی ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی(بنگلورو) کی رپورٹ کے مطابق سال 2016 سے 2018کے دوران تقریباً 50لاکھ لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں۔ 2016 وہی سال ہے جب ملک میں نوٹ بندی کی گئی تھی۔ 500اور 1000کے نوٹ بند کیے گئے تھے۔ یہ تو ماضی کے تعلق سے عظیم پریم جی یونیورسٹی کی رپورٹ ہے۔ امسال کورونا کی وجہ سے ملک میں جو لاک ڈاؤن کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے جی ڈی پی منفی میں چلی گئی۔ کاروبار اور کارخانے بند ہوگئے۔ بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں میں بھکمری تک کی نوبت آگئی۔ اب بھی بہت سے کارخانے بند ہیں اور لوگ بے روزگار گھر پر بیٹھے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد پھیلی بے روزگاری کی رپورٹ آئے گی تو تصویر مذکورہ سے بھی بھیانک ہوگی۔
اس سے قبل نیشنل سمپل سروے آفس کے اعدادوشمار سال 2011-12میں آئے تھے۔ اس بار جولائی 2017سے جون 2018کی جو رپورٹ این ایس ایس اونے جاری کی ہے، اس میں سابقہ رپورٹ کی صورت حال اور شرح سے موازنہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2011-12 میں قومی اوسط سے کم شرح رکھنے کی فہرست میں 9ریاستیں شامل تھیں جو سال 2017-18 میں بڑھ کر 11ہوگئیں۔ اس دوران صرف ایک ریاست میں حالات بہتر ہوئے جب کہ 3نئی ریاستیں تمل ناڈو، تلنگانہ اور پنجاب اس میں شامل ہوگئیں۔ ہریانہ، آسام، بہار، کیرالہ، جھارکھنڈ، اڈیشہ اور اتراکھنڈ میں پہلے کی طرح قومی اوسط سے زیادہ بے روزگاری رہی۔ رپورٹ میں جہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ ملک میں سب سے کم بے روزگاری کی شرح چھتیس گڑھ میں 3.3فیصد رہی تو مدھیہ پردیش میں 4.5فیصد ہوگئی جب کہ مغربی بنگال میں 2011-12 کی 3.2 فیصد کے مقابلہ میں 4.6 فیصد بے روزگاری ہوگئی۔ اس وقت یہ ریاست سب سے زیادہ بے روزگاری کے معاملہ میں پانچویں نمبر پر تھی جب کہ اب سب سے کم بے روزگاری والی ریاستوں کی فہرست میں شامل ہوگئی۔ ملک میں سب سے زیادہ بے روزگاری کیرالہ میں 11.4فیصد، ہریانہ میں 8.6فیصد، آسام میں 8.1فیصد، پنجاب میں 7.8فیصد اور اترپردیش میں 6.4فیصد رہی اور اگر بات کی جائے کہ سب سے تیزی سے کہاں بے روزگاری بڑھی۔ تو رپورٹ میں گجرات کا نام لیا گیا ہے جہاں 2011-12میں بے روزگاری کی شرح صرف0.5فیصد تھی لیکن اس کے 6سال بعد وہی شرح 4.8فیصد ہوگئی۔ رپورٹ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح کم ہوئی ہے جب کہ دیہی و شہری علاقوں میں کم و بیش یکساں بے روزگاری بڑھی ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں بے روزگاری ایشو بنی ہوئی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اسے لے کر مودی سرکار پر حملہ آور ہیں۔ بہار کے اسمبلی الیکشن میں روزگار اہم ایشو بنا ہوا ہے، راشٹریہ جنتا دل نے جہاں 10لاکھ نوکریاں کابینہ کی پہلی میٹنگ میں دینے کا وعدہ کیا ہے تو بی جے پی نے 19لاکھ روزگار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ سے یہ ایشو پورے ملک میں ہوسکتا ہے حالاں کہ یہ رپورٹ ابھی تک سرکاری طور پر جاری نہیں کی گئی ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ ابھی یہ مسودہ ہے۔ تاہم ملک میں جی ڈی پی کا جو حال ہے اور لوگ اپنے گردو نواح اور خود کو بے روزگار دیکھ رہے ہیں، این ایس ایس او کے اعدادوشمار وہی تصویر بیان کررہے ہیں۔ جب تک جی ڈی پی کی شرح میں بہتری نہیں آئے گی، بے روزگاری کی حالت میں بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی جیسا کہ ماہرین معیشت کا خیال ہے۔ بہرحال مذکورہ رپورٹ سے سرکار کے خلاف اپوزیشن کو ایک اور بڑا ایشو اعدادوشمار کے ساتھ مل گیا جس پر بہت دنوں تک سیاست ہوتی رہے گی۔
[email protected]
- Regional
- Andhra Pradesh & Telangana
- Kerala, Other States & UT
- North-East India
- Opinion & Editorial
- Punjab & Haryana
ملک میں بے روزگاری کا حال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS