سرینگر(صریر خالد،ایس این بی):قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے آج سرینگر سمیت وادی کے مختلف علاقوں میں ایک معروف انگریزی اخبار کے دفتر اور انسانی حقوق کے ایک نامور کارکن کے گھر سمیت درجن بھر مقامات پر چھاپے مارے۔ ایجنسی نے ان مقامات سے قابلِ اعتراض مواد بر آمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔
تفتیشی ایجنسی کی یہ کارروائیاں صبح سویرے انجام پائیں اور انکے بارے میں خبر پھیلتے ہی لوگ گویا سکتے میں آگئے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایجنسی کے افسروں اور اہلکاروں کی ایک ٹیم نے صبح تڑکے جموں کشمیر پولس اور سی آر پی ایف کے اہلکاروں کے ہمراہ سرینگر کی پریس کالونی میں معروف انگریزی اخبار گریٹر کشمیر کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ ذرائع نے بتایا کہ اخباری دفتر میں کاغذات اور کمپیوٹروں کی باریک بینی سے تلاشی لی گئی اور ایجنسی کے اہلکاروں نے کئی دستاویزات اور کمپیوٹر اپنی تحویل میں لے لئے تاہم کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔گریٹر کشمیر جموں کشمیر کی سطح پر سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار مانا جاتا رہا ہے تاہم حالیہ مہینوں میں اسکی مقبولیت میں خاصی گرواٹ محسوس کی جارہی ہے۔حالانکہ اس اخبار کو ’’عوامی اکثریت کے جذبات کا ترجمان‘‘بتایا جاتا رہا ہے تاہم گذشتہ سال دفعہ 370کے خاتمہ کے مرکزی سرکار کے غیر متوقع فیصلے کے بعد سے اسکے اندازِ بیان میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور بعض لوگ اسے سرکاری اداروں کا ہم نوا کہنے لگے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اخبار کے سابق ایکزیکٹیو ایڈیٹر اور سینئر صحافی ظہیرالدین ،بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے سرینگر بیورو چیف پرویز بخاری اور انسانی حقوق کے نامور کارکن خرم پرویز کے گھروں کے علاوہ ایجنسی نے دیگر متعدد مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔چھاپوں کی زد میں سرینگر میں انتہائی سرگرم ایک فلاحی ادارہ اتھہ روٹ کا صدر دفتر بھی آیا ہے۔خود این آئی اے نے ایک بیان میں کہا کہ بعض ٹرسٹوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے چندے کے نام پر جنگجوئیانہ سرگرمیوں کیلئے رقومات حاصؒ کرنے کی مصدقہ اطلاعات سے متعلق درج ایک معاملے کی تحقیقات کے تحت چھاپے مارے گئے ہیں۔ ایجنسی نے چھاپہ ماری کے دوران مختلف دستاویزات اور کمپیوٹر وغیرہ ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔
دلچسپ ہے کہ این آئی اے کی یہ چھاپہ ماری مرکزی سرکار کی جانب سے جموں کشمیر میں زمین کی خریدوفروخت سے متعلق قوانین بدلنے کے محض اگلے روز دیکھی گئی ہے۔نئے قوانین کے مطابق اب سے کوئی بھی ہندوستانی شہری جموں کشمیر میں کسی دقعت یا اضافی دستاویز کی ضرورت کے بغیر زمین خرید سکتا ہے۔اس قانون نے سابق ریاست کے لوگوں کو سکتے میں ڈال دیا ہے یہاں تک کہ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے کشمیر کو سیل پر رکھے جانے کا الزام لگایا ہے جبکہ ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی مرکز کی شدید تنقید کی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز نے مرکزی سرکار کے قوانین کی شدید مخالفت کرتے ہوئے پے در پے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جموں کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے اور یہاں کی زمین کو ہڑپ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔چناچہ انکے اس ٹویٹ کے چند ہی گھنٹوں کے بعد انکے گھر چھاپہ پڑا ہے جو محض ایک اتفاق بھی ہوسکتا ہے۔
سرینگر اور وادی کے دیگر علاقوں میں این آئی اے کی تازہ چھاپہ ماری، معروف اداروں اور اشخاص کی تلاشی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS