سرسید احمد خاں ، ایک گوہر نایاب

0

ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی

محسن  ملت سرسید احمد خاں 1857کی بغاوت میں مسلمانوں کی تباہی وبربادی کے منظرنامہ کے چشم دید گواہ تھے۔ بغاوت کے بعد مسلمانوں کی تباہی وبربادی اور ذلت ورسوائی سے سرسید احمد خاں بہت ملول و دل گرفتہ تھے۔ ان کو یہ غم کھائے جارہا تھا کہ اب ا س قوم کی خوشحالی اور فارغ البالی کے دن واپس نہیں آئیں گے، ان کی قسمت میں اب شکست وہزیمت ہی ہے۔ لیکن آپ نے غور وخوض کیا۔ مقدمات و مؤخرات کا تجربہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کی ذلتوں و محرومیوں سے ابھر نے کاراز صرف تعلیم میں مضمر ہے اور جو قومیں ماضی سے سبق نہ لیں اور مستقل تعمیر وترقی کا کوئی مضبوط لائحہ عمل نہ بنائیں وہ قومیں کبھی بھی تہذیب وتمدن سے مستفیض نہیں ہوسکتیںبلکہ وہ تنزل پذیر ہوجاتی ہیں۔ سرسید احمد خاں لکھتے ہیں :
’’میں اس وقت ہر گز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائے گی، جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتاتھا۔ چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے بوڑھا کردیا اور میرے بال سفید کردیے ‘‘۔
مصلح قوم سرسید احمد خاں ملک کو خوش حال اور امت مسلمہ کے نونہالوں کے چہروں پر خوشی ومسرت دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ انہوںنے ملک وملت کو معاشی وتعلیمی طور پر بحرانی کیفیت میں دیکھا تھا، اسی وجہ سے انہوںنے علم و ہنر اور جدید تعلیمی نظام کو شاہ کلید قراردیا اور وقت کی اہم ضرورت کو سمجھا۔ سرسید احمد خاں نے دسمبر 1888 میں مسلمان طلباء پنجاب کو خطاب کرتے ہوئے کہاتھا: ’’ یہ میری آرزو ہے کہ میں اپنی قوم کے بچوں کو آسمان کے تاروں سے اونچا اور سورج کی طرح چمکتا ہوا دیکھوں ‘‘۔
سرسید احمدخاں نے جس خوشحال ملک، فارغ البال قوم اور باوقار ملت کا خواب دیکھا تھا اس کی خوش رنگ تعمیر کی تلاش وجستجو اب بھی جاری وساری ہے۔ سرسید احمد خاں نے جس شمع علم وعرفان کو روشن کیا تھا۔ آج پوری دنیا میں اس مادر درسگاہ کے طالب علم فکروفن ، علم وآگہی کے جلوے بکھیر رہے ہیں۔ سرسید احمد خاں کی علمی مہم رائیگاں نہیں گئی۔ ترقی کی منازل قوم کے نونہال آج بھی طے کررہے ہیں۔ سرسید احمد خاں مغربی تہذیب اور جدید نظام کے ساتھ اپنے طالب علموں میں دین اسلام کی محبت بھی پیوست کرنا چاہتے تھے۔ ایک موقع پر طلباء لاہور کو خطا ب کرتے ہوئے یہ پیغام گوش گزار کیا: ’’آپ یقین کریں گے جس طرز پر میں یوروپین سائنسز و لٹریچر کو اپنی قوم میں اعلیٰ درجہ کی ترقی پر ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس سے کہیں زیادہ میری کوشش اس پر ہے کہ وہ اسلام کو برحق سمجھیں اور کلمۂ لاالہ الا اللہ پر قائم رہیں ‘‘۔
سرسید کے اس تعلیمی مشن سے ملک نے بھی ترقی کی اور قوم وملت کے نوجوانوں نے بھی علم وہنر کے میدانوں میں زندہ وتابندہ نقوش قائم کیے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا ملک وبیرون ملک علمی وادبی، سیاسی وسماجی اور تہذیبی وثقافتی فتوحات سرکرتے جارہے ہیں۔ 
بانی درس گاہ اگر جدید تعلیمی نظام کو کامیابی کی کلید قراردیتے ہوئے نظر آتے ہیں توا س سے کہیں زیادہ ان کو قوم کے مرکز طلبا کی تربیت پر نگاہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ علم ان طلبا کو قوم بناتی ہے اور تربیت ان طلبا کو عزت دیتی ہے۔ 
اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں :’’ میرے عزیزو! تعلیم کے ساتھ اگر تربیت نہ ہو اور جس تعلیم سے قوم ، قوم نہ بن سکے وہ تعلیم درحقیقت کچھ قدر کے لائق نہیں ہے‘‘۔
سرسید کے تعلیمی نظام نے ایسے مثالی نوجوان پید اکیے تھے۔ اس کی مثال ہفتہ وار، صدق لکھنؤ  کے مرحوم ایڈیٹر مولانا عبدالماجد دریابادی کی زبانی سنیے :
’’ غالباً 1898 کا ذکر ہے ، سرسید کی وفات یا تو ہوچکی تھی یاعنقریب ہونے کو تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شہرت کرکٹ کے میدان میں ہندوستان بھر میں مشہور ہوچکی تھی، ایک کرکٹ میچ سول سروس والوں کے مقابلہ میںنینی تال میں قرار پایا۔ میچ شروع ہوا اور اتفاق سے جمعہ کا دن تھا۔ سول سروس کی ٹیم کھیل رہی تھی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کھلا رہی تھی۔ علی گڑھ کے شہرۂ آفاق بالر اشفاق احمد بالنگ کررہے تھے۔ ایک مرتبہ جو اشفاق نے گیند پھینکنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو یکایک نماز جمعہ کی اذان کانوں سے ٹکرائی فوراً بالر اشفاق احمد کابالنگ کے لیے اٹھایا ہوا ہاتھ نیچے کو گرگیا۔ سرسید کی تربیت گاہ میں پرورش پائے ہوئے اس طالب علم نے یہ گوارا نہ کیا بال کو پوری کرلے۔سول سروس (جو بیٹنگ کررہی تھی ) اس پابند شریعت بالر کو حیرت اور استعجاب کی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ یہ تھا چمنستان سرسید کا ایک انمول پھول جس نے سارے میدان کو حیرت میں ڈال دیا ‘‘۔
’’ سرسید احمد خاں فرماتے ہیں کہ تربیت سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں قومیت اور قومی اتحاد و ہمدردی جو اول سیڑھی ہے قومی ترقی کے لیے قائم رہے۔ اس کے لیے ہمت کیا کرنا ہے سب سے مقدم یہ کرنا ہے کہ وہ مسلمان رہیں او ر مذہب اسلام کی حقیقت ان کی دل میں قائم رہے او ر اس لیے ضروری ہے کہ ہم انگریزی تعلیم کے ساتھ ان کو مذہبی تعلیم بھی دیں اور عقائد مذہبی ان کو سکھائیں اور جہاں تک ممکن ہو ان کوفرائض مذہبی کا پابند رکھیں۔
سرسید احمد خاں ملک وقوم کے لیے ایک دردمند دل رکھتے تھے، وہ ملک کے لیے ہمدرد اور قوم کے لیے غمگسار اور خیرخواہ تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ قوم کی ترقی کا راز اور مجموعی ترقی کے لیے اجتماعی جدو جہد ضروری ہے۔ ان کا ماننا تھا او راس پر پو رایقین تھا کہ اگر ہندوستانی مسلمان ترقی کرے گا تو یہ ملک ترقی کرے گا اور ملک کی ترقی میں حصہ داری کے لیے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ تب کہیں ان کا شمار ترقی یافتہ قوموں میں ہوگا اور زمانہ کے چیلنج کو مضبوطی کے ساتھ قبول کرو۔ جس مضبوطی کے ساتھ وہ تمہارے سامنے آئے اسی مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار رہو۔ سرسید احمد ہمیشہ یہ بات کہا کرتے تھے :
’’ جس قو م نے زمانہ کے چیلنجز کو قبول نہیں کیا ا س کو زمانہ دیوار پر دے مارتاہے لیکن جن لوگوں نے حالات کے تقاضوں کو سمجھا، دنیا ان کے قدم چومتی ہے ‘‘۔
سرسید احمد خاں کا ماننا تھا کہ مسائل ومشکلات جتنی شدت کے ساتھ آپ کے راستہ میں حائل ہوں آپ کی کامیابی کی راہ میں سدراہ ہوں تو آپ اتنی ہی شدت و لگن سے اپنے کردار وعمل سے اپنی کوششوں کو تیز سے تیز کردو۔ نفرت وعداوت کا قلعہ زمیں بوس ہوجائے گا او رکامیابی و کامرانی تمہارا مقدر بن جائے گی۔
موجودہ حالا ت کے تناظر میں دیکھاجائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ سرسید احمد خاں کا جو تعلیمی و تہذیبی فارمولہ تھا۔ قومی ترقی کے لیے وہ آج بھی بروئے کار لا یا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں ہر طرف مسلمانوں کو درپیش چیلنجز ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس لائحہ عمل کو ئی بھی نہیں ہے۔ بس اغیار کو کوسنا ہماری فطرت بن چکی ہے۔ ہم بہت مظلوم ہیں ہم کو ستایا جارہا ہے۔ ہمارے تشخص کو مٹانے کی پالیسی بنائی جارہی ہے۔ ایسے میں سرسید احمد خاں کی بلندفکرکو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ جب بھی انہوںنے اسلام پر حملہ دیکھا تو مخالفین کو انہیں کی زبان میں اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا۔ چاہے مسئلہ ہو نبی اکرم ؐ کی ذات گرامی پر مستشرق دانشور ولیم میور کی لائف آف محمد کا، چاہے تعدد ازواج کا مسئلہ چاہے طلاق کا مسئلہ ہو، جہاد کا مسئلہ ہو،جزیہ کا مسئلہ ہو یا مذہبی آزادی کا مسئلہ ہو۔ ہر مسئلہ کو مفاہمت سے حل کیا نہ کہ مخاصمت سے اور اسلام کی حقانیت کو سائنٹفک طریقہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی جس میں سرسید کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔ 
آج کے دور میں بھی سرسید احمد خاں کی فکر ی بلندی سے فائدہ اٹھاکر ایک بہترمستقبل کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
 سرسیداحمدخاں کی عظیم قربانیوں کو دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ سرسید محض ایک فرد ِ واحدکا نام نہیں بلکہ ایک جماعت کا نام ہے۔ وہ ایک شخص نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت کارواں جیسی تھی، اقوام وملل کی تاریخ میں سرسید احمدخاں ایک گوہرِ نایاب ،بے مثال اور کم یاب شخص کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(مضمون نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میںاسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS