!تیزکرنی ہوگی بھوک کے خلاف جنگ

0

محمد فاروق اعظمی

امن کا نوبل انعام اس سال ’ورلڈ فوڈ پروگرام‘ کو دیا جانا ہے۔ 19دسمبر2020 کو اوسلو میں ہونے والی تقریب میں یہ انعام ایسے ادارہ کو دیاجائے گا جو دنیا بھر میں بھوک، قلت خوراک اور غذاکی منصفانہ تقسیم کیلئے کام کررہا ہے۔فوڈ پروگرام کو امن کے نوبل انعام کیلئے منتخب کرنے والوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ انسان کی بھو ک کو ختم کیے بغیر دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔
 ایک ایسے وقت میں جب دنیا ترقی کی وہ منزلیں طے کررہی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیاگیا تھا۔ترقی یافتہ ممالک چاند اور مریخ کے بعد اب سورج پر کمند ڈالنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ ایسے میں غریبی، مفلسی، بھوک اور قلت خوراک جیسے بنیادی مسئلہ کا اب تک حل نہ ہوپانا دنیا کے وسائل پر قابض ممالک اورا فراد کی کھلی خودغرضی ہے۔ترقی کے ساتھ ساتھ تنزلی کی یہ برق رفتاری اہل زمین کی ہوس کی وہ دردناک کہانی ہے جس کے کردار دنیا کے 690ملین بالغ افراد اور 144 ملین بچے ہیں۔ انسانوں کی اتنی بڑی تعداددو وقت کی روٹی نہیں کھاپارہی ہے۔
عالمی برداری ہرسال 16اکتوبر کوبھکمری کے خلاف عالمی دن مناکر عہد کرتی ہے کہ کھانے کی کمی اور ناقص خوراک کی وجہ سے کسی کی موت نہ ہولیکن آج بھی بھوک سے مرنے والوں کی تعداد امراض میں ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔عالمی خوارک کے ادارے کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں 90 کروڑ افراد رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ دنیا کی8 ارب کی کل آبادی میں سے90 کروڑ افراد کا روزانہ رات کو بھوکے سونے کا مطلب یہ ہوا کہ ہر آٹھواں یا نواں آدمی روزانہ بھوکا سوتا ہے۔بھوک اور قلت خوراک نے 2018میں 5.3ملین بچوں کو موت کی گہری نیند سلادیا تھا، ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہی ہورہاہے۔ ورلڈہنگر انڈیکس کے مطابق دنیا کے دو حصوں افریقہ اور دوسرا جنوبی ایشیا یعنی ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما وغیرہ ممالک میں تقریباً 31 فیصد لوگ ایسے ہیں جو دو وقت کا کھانا با آسانی اپنے موجود وسائل پر نہیں کھا سکتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 1.60ارب کروڑ افراد کیلئے خوراک بہت مہنگی ہے، وہ اسے خریدنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔اس وقت دنیا کی آبادی میں سے ہر پانچواں آدمی مثالی خوراک سے محروم ہے۔خوراک کی اس کمی کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں لگتا ہے کہ عالمی برادری نے اگلے2030تک دنیا کو بھو ک سے پاک کرنے یعنی ’زیروہنگر‘کا جو ہدف مقرر کیا ہے، وہ حاصل کرپائے گی۔
رواں سال 2020میں جاری گلوبل ہنگرانڈیکس کے مطابق 107ملکوں کی فہرست میں ہندوستان 94ویں مقام پر ہے اوراس کا اسکور27.2تک آپہنچا ہے۔ عالمی پیمانہ پر یہ صورتحال انتہائی سنگین ہونے کی علامت ہے۔گلوبل ہنگر انڈیکس یعنی بھوک سے متعلق عالمی اشاریہ میں دنیا کے تمام ملکوں میں کھانے پینے کی صورتحال کی تفصیلی جانکاری ہوتی ہے۔اس انڈیکس میں یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ کس ملک میں لوگوں کو کس طرح کے کھانے کا سامان مل رہا ہے۔اس کا معیار اور مقدار کیا ہے۔ غذائیت والے کھانوں کی فراہمی کی صورتحال کیسی ہے، بھوکے رہ جانے اوربھوک سے مرنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ دستیاب اعداد و شمارکی بنیاد پر سبھی ملکوں کی رینکنگ کی جاتی ہے۔ہندوستان کے تناظر میں یہ رپورٹ انتہائی تکلیف دہ اور المناک ہے۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ بھوکے لوگوں کو ان کی قسمت پر چھوڑ دیاگیا ہے۔ 
 17اکتوبر 1993کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس کا موٹو تھا ’’جب بھی کوئی انسان انتہائی غربت میں رہنے پر مجبور ہو گا، تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔‘‘ اس کے بعد سے اس سلسلے میں کام کا آغاز ہوا۔ہرسال بڑے دھوم دھام سے یہ دن منایاجاتا ہے اور اگلے تین دنوں بعد پھر یہ دن اسی شان سے منایاجائے گا۔ لیکن اس سے قبل سامنے آنے والی رپورٹ نے حساس دلوں کے تار چھیڑ دیے ہیں۔
رپورٹ کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کی رینکنگ میں لگاتار گراوٹ آرہی ہے۔ سال 2014 میں ہندوستان جہاں 55 ویں پائیدان پر تھا، وہیں 2015 میں 80 ویں،2016 میں 97ویں، 2018 میں 100ویں اور2019میں 103ویں پائیدان پر لیکن اس بار2020 میں اس میں تھوڑی سی بہتری دیکھی گئی ہے اور یہ94ویں مقام پر آگیا ہے۔یہ بھی بہتری حکومتی اقدام کے بجائے کورونا کی مرہون منت ہے۔ کورونا کے بحران کے دوران مخیرحضرات کی جانب سے خوراک کی تقسیم کے سبب لاکھوں بھوکوں کو پیٹ بھر کھانا مل سکا ہے۔
خوراک کی کمی کی ایک بڑی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ بتائی جاتی ہے اوریہ بات بجا طور پر درست ہے کہ ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی میں بے انتہا اور تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس کے زیاں کے معاملے میں بھی ہندوستان پیچھے نہیں ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہندوستان میں تیار کھانے کا تیسرا حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔خوراک کی کمی کی وجوہات میں بے انتہامہنگائی، غربت، بے روزگاری، کھانے پینے کی چیزوں تک خط افلاس سے نیچے رہنے والوں کی عدم رسائی، کسانوں کو واجب قیمت کی عدم ادائیگی، گائوں سے شہر کی طرف تیزی سے منتقلی اور ذخیرہ اندوزی شامل ہے۔ ہندوستان میں غذائیت کی کمی سے نمٹنے کیلئے کئی منصوبے تیار کیے گئے لیکن ان منصوبوں کے نفاذ میں ایمانداری مفقود ہے۔افراط زر اور خوراک کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ نے غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کومجبور محض بنادیا ہے۔’ ان دیوتا‘ کہے جانے والے کسانوں کو سرمایہ داروں کے ہاتھ کا کھلونابنا دیاگیا ہے اور وہ اپنی ہی زمین پر مزدور بن رہے ہیں۔ حالیہ دنوں منظور کیے گئے زراعت اور کاشتکاری سے متعلق تین قوانین کو بھی ملک کا ایک طبقہ آنے والے دنوں میں غذائی بحران کا سب سے بڑا سبب قرار دے رہاہے۔ 
بھوک کی اس صورتحال میں ترقی کے بلند بانگ دعوے اور وشو گرو بننے کا خواب احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے۔ اگر دنیا کو پرامن اور حیات انسانی کی رہائش کے لائق بنائے رکھنا ہے تو بھوک کے خلاف جنگ تیز کرنی ہوگی۔ خیالی فلسفہ اور5ہزار سال پرانی ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کی بازآفرینی کی کوششوں سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم بھوکوں کو دو وقت کی روٹی کھلاسکیں۔ نوبل کمیٹی نے 2020 کے امن انعام کیلئے ’ ورلڈ فوڈپروگرام‘ کو منتخب کرکے یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہمیں قیام امن کیلئے بھوک کے خلاف جہاد کا عزم لے کرآگے بڑھنا ہوگا۔ 
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS