ارون کمار
وزارت مالیات نے بتایا کہ ستمبر ماہ میں 95,480کروڑ روپے گڈس اینڈ سروس ٹیکس(جی ایس ٹی) کی شکل میں جمع کیے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال میں اب تک کسی ایک ماہ میں کیا گیا سب سے زیادہ جی ایس ٹی کلیکشن ہے۔ اتنا ہی نہیں، وزارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ رقم گزشتہ سال کے ستمبر ماہ کے جی ایس ٹی کلیکشن سے تقریباً چار فیصد زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری معیشت بہتری کی راہ پر ہے اور تیزی سے آگے بڑھ چلی ہے۔ مگر یہ بہتری کس طور پر آگے بڑھ رہی ہے، اس پر غور کرنا ضروری ہے۔
یہ صحیح ہے کہ معیشت جیسے جیسے کھلے گی اور اَن لاک کے عمل کو آگے بڑھایا جائے گا، کاروبار بڑھے گا اور ٹیکس کلیکشن میں بھی تیزی آئے گی۔ مگر جنوری، 2020والی حالت میں پہنچنے کے لیے اب بھی کافی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ جی ایس ٹی کلیکشن کے یہ اعدادوشمار خالص فائدہ ہے یا نہیں؟ حقیقت میں کاروباری جب جی ایس ٹی جمع کرتے ہیں تو انہیں ان پٹ کریڈٹ دیا جاتا ہے اور بعد میں بطور ریفنڈ انہیں کچھ رقم واپس کی جاتی ہے۔ مگر اس مرتبہ سننے میں یہی آرہا ہے کہ حکومت ریفنڈ نہیں کررہی ہے۔ یہی نہیں، پرانے معاملات میں بھی کاروباریوں کو جی ایس ٹی دینے کے لیے پابند کیا جارہا ہے۔
جی ایس ٹی کلیکشن کا بھرم اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ ریستوراں، ایوی ایشن انڈسٹری، ریل جیسے خدمات کے شعبے محض 30-40فیصد صلاحیت کے ساتھ اپنی خدمات دے رہے ہیں۔ کورونا انفیکشن کے دور سے پہلے ریلوے ہر دن14,000پیسنجر ٹرینیں چلایا کرتا تھا، لیکن آج صرف400-500 ٹرینیں ہی روزانہ چل رہی ہیں۔ اسی طرح ہوائی خدمت سے بھی پہلے کے مقابلہ میں محض30-40فیصد مسافر ہی سفر کررہے ہیں۔ میٹرو کا بھی یہی حال ہے، جہاں سوشل ڈسٹینسنگ کی وجہ سے مسافروں کی تعداد محدود کی جارہی ہے۔ یعنی جب خدمات کے شعبے اپنی پوری صلاحیت میں کام نہیں کررہے ہیں تب گزشتہ سال کے ستمبر کے مقابلہ بھلا کیسے جی ایس ٹی کلیکشن زیادہ ہوسکتا ہے، جب کہ معیشت میں اس شعبہ کی حصہ داری سب سے زیادہ تقریباً تقریباً 55فیصد ہے؟
ظاہر ہے کہ اَن لاک کے عمل کو آگے بڑھانے کی وجہ سے جی ایس ٹی کلیکشن میں تیزی آئی ہے، لیکن گراوٹ اب بھی قائم ہے، بالخصوص غیرمنظم سیکٹر میں۔ گاؤوں میں مزدور تو بڑھ گئے ہیں، لیکن ڈیمانڈ نہ ہونے کے سبب کئی ہاتھ بے روزگار ہیں۔ پھر منظم سیکٹر میں بھی تصویر بہت خوشگوار نہیں ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی، یعنی سی ایم آئی ای کے مطابق، لاک ڈاؤن کے دوران ملک کے منظم سیکٹرس میں تقریباً 2کروڑ لوگوں کی نوکریاں گئی ہیں، جن میں تقریباً 50لاکھ پیشہ ور ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس سیکٹر میں بھی لوگوں کی آمدنی کم ہوئی ہے۔
ابھی ہماری درآمد بھی کافی کم ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ٹریڈ اکاؤنٹ میں سرپلس نظر آرہا ہے۔ درآمد کم ہونے کا مطلب ہے کہ ملک میں پیداوار کم ہورہی ہے۔ کورسیکٹر میں بھی گراوٹ ہے۔ ان سارے اشاروں کا یہی مطلب ہے کہ ترقی کی شرح کلیت میں کم ہی ہے۔ ہاں آٹوموبائل کے سیکٹر میں اچھال لازم ہے، کیوں کہ کورونا انفیکشن کی وجہ سے پرائیویٹ گاڑیوں کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھا ہے۔ اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ ہماری معیشت کیسے پٹری پر لوٹے؟ اس کے لیے ظاہری طور پر ڈیمانڈ کا بڑھنا ضروری ہے۔ آٹوموبائل سیکٹر میں آئی تیزی سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے۔ ابھی حال-فی الحال بے روزگار ہوئے ہاتھ جہاں تنگ ہیں، وہیں تنخواہ دار طبقہ بھی کم خرچ کررہا ہے، کیوں کہ اس پر نوکری جانے کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ یہ طبقہ اپنی بچت میں مصروف ہے۔ ایسے میں، بہتر یہی ہوگا کہ سب سے پہلے بے روزگاروں کو روزگار دیا جائے اور اس کے لیے دیہی روزگار گارنٹی اسکیم سے بہتر فی الحال کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔
دیہی علاقوں میں ابھی منریگا اسکیم کے تحت 100دنوں کا کام مل رہا ہے، مگر اس سے پانچ افراد کا ایک کنبہ پالنا مشکل ہے، کیوں کہ ان مزدوروں کے پاس فی الحال کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔ اسی لیے اس کے تحت اب 200دنوں کا کام ملنا چاہیے۔ حکومت نے منریگا کے بجٹ میں 40ہزار کروڑ روپے کا اضافہ کیا ہے، لیکن مزدوروں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس رقم کو چار لاکھ کروڑ روپے کیے جانے کی ضرورت ہے۔ دیہی کھپت کی استعداد جیسے ہی بڑھے گی، ہمارے بازار میں لیکویڈٹی آئے گی اور پھر معیشت میں رفتار نظر آنے لگے گی۔
اسی طرح شہروں کے لیے بھی روزگار گارنٹی ایکٹ بنایا جانا چاہیے۔ وہاں لوگوں سے انفرااسٹرکچر کے کام کرائے جاسکتے ہیں۔ حکومت کو اس مد میں ایک-ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے الاٹ کرنے چاہئیں۔ ایسی ہی مدد کاروباریوں کو بھی ملنی چاہیے۔ چوں کہ لاک ڈاؤن کے دوران کئی کاروباریوں کے ضروری اخراجات جاری رہے، اس لیے ان کے کاروبار اب ختم ہونے کے دہانے پر آگئے ہیں۔ ان کی آمدنی کو بڑھانا ضروری ہے۔ ان کے لیے حکومت نے موریٹوریم کا اچھاانتظام کیا تھا، مگر اب یہ سہولت ہٹانے کی تیاری ہے، جب کہ اس کی میعاد بڑھانا درکار ہے۔ مگر اس کے لیے بینکوں کو بھی حمایت دینی ہوگی، کیوں کہ ان کی آمدنی کا ذریعہ قرض پر وصولی جانے والی سود کی رقم ہی ہے۔
ان سب کے لیے فطری طور پر وسائل کی ضرورت پڑے گی اور بڑھتے مالیاتی خسارہ کو دیکھتے ہوئے لگتا نہیں ہے کہ حکومت کچھ خاص کرنے کا منصوبہ بنائے گی۔ البتہ سبھی سرکاری محکموں کو اپنے خرچ کم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس حالت میں وسائل اکٹھے کرنے کے لیے کووڈ بانڈ جاری کیے جاسکتے ہیں، جس کی سود شرح ریورس ریپو ریٹ سے نصف فیصدی زیادہ ہو۔ اس سے نہ صرف بینک اپنا سرپلس یہاں لگا پائیں گے، بلکہ دولت مند طبقہ بھی اس میں سرمایہ کاری کے لیے راغب ہوگا۔ اس منصوبہ میں ریزرو بینک کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے، اس سے حکومت کے پاس ٹھیک ٹھاک پیسے آئیں گے اور اگر اس کی منصفانہ تقسیم کی گئی تو اس سے بازار میں ڈیمانڈ میں اضافہ بھی ہوگا، جس کا مثبت اثر معیشت پر پڑے گا۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگار ماہر معاشیات ہیں)