گلوبل وارمنگ پر کنٹرول کیلئے نئی ترکیب! رحمت یا زحمت؟

0

صبیح احمد

مختلف سائنسی تحقیق کی بنیاد پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ دنیا میں گلوبل وارمنگ اور آلودگی کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار امیر طبقہ یعنی دنیا کے وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے بڑھتے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے پوری دنیا اور خاص طور پر جاندارو ں کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ دنیا سے غربت کے خاتمہ کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارہ ’آکسفیم‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 سے 2015 کے دوران دنیا کے ایک فی صد امیر ترین لوگوں نے دنیا کی غریب ترین 50 فیصد آبادی سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج کر کے آلودگی بڑھائی۔ گزشتہ 25 برسوں میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 60 فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن امیر ترین ایک فی صد آبادی آلودگی کے اخراج میں غریب ترین لوگوں کے مقابلے دو گنا سے بھی زائد اضافہ کی ذمہ داررہی۔ اب اسی طبقہ نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے آلودگی پر کنٹرول کے لیے نئی ترکیب وضع کی ہے۔ 
مغربی ممالک میں آج کل گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی کوشش کے تحت عمارتوں میں زیادہ سے زیادہ لکڑیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جنگلات کثرت سے پائے جاتے ہیں، عمارتوں میں اب زیادہ تر لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ امریکہ میں رہائشی مکان اور چھوٹی عمارتوں کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ سے امریکہ میں دفاتر اور کاروباری مقاصد کے لیے وسیع رقبے پر محیط لکڑی کی کثیر منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں ایسٹرن واشنگٹن یونیورسٹی میں ڈیڑھ لاکھ مربع فٹ پر محیط ایک 5 منزلہ عمارت مکمل ہوئی ہے جو ماسوائے ان چیزوں کے جنہیں لکڑی سے بنایا نہیں جاسکتا تھا، تمام تر لکڑی کی ہے۔ اس کی دیواریں، ستون، چھتیں، فرش، کھڑکیاں، روشن دان، دروازے، سیڑھیاں غرض ہر چیز میں لکڑی یا لکڑی کی مصنوعات کا استعمال کیا گیا ہے۔ کناڈا کے شہر ٹورنٹو میں لکڑی کی ایک 10 منزلہ عمارت تعمیر کے مراحل میں ہے۔ وہاں اسی طرح کی 2 اور عمارتیں بھی بنائی جائیں گی۔ 
 ایک ایسے وقت میں جب دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، ہزاروں سال پرانے گلیشیرز اور پہاڑوں پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے، تبدیل ہوتی ہوئی آب و ہوا شدید طوفانوں اور قحط و خشک سالی کا سبب بن رہی ہے اور ہر آنے والے دن میں خطرے کی گھنٹی کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین اس صورت حال پر قابو پانے کے نئے اور قابل عمل طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ سائنس دانوں کا ایک گروپ اپنی توجہ عمارتوں اور ان میں استعمال ہونے والے میٹریل پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عمارتوں میں لکڑی کا استعمال بڑھا دیا جائے تو اس سے گلوبل وارمنگ کے اثرات پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوہا، سیمنٹ اور دیگر تعمیراتی میٹریل ان کارخانوں اور فیکٹریوں میں تیار کیا جاتا ہے جنہیں چلانے کے لیے توانائی خرچ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں کاربن گیسیں خارج ہوتی ہیں جو عالمی حدت کا ایک بڑا سبب ہیں۔ ماہرین کے مطابق عمارتی لکڑی درختوں سے حاصل ہوتی ہے۔ درخت ہمارے قدرتی ماحول کو آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے بچاتے ہیں۔ درخت دن کے وقت کاربن گیس جذب کر کے آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں جو ہمارے ماحول کو صاف رکھتی ہے۔ اسی طرح عمارتی لکڑی بھی ماحول دوست ہوتی ہے۔ لکڑی کی عمارتیں اپنے اندر مقررہ درجہ حرارت کو دیر تک برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لیے انہیں گرم یا ٹھنڈار کھنے پر کم توانائی صرف ہوتی ہے۔ لکڑی کی عمارت کے اندر کی فضا مضر صحت کیمیکلز سے پاک ہوتی ہے اور وہ انسانی صحت کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں جنگلات موجود ہیں،  وہاں عمارتوں میں لکڑی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو فروغ دینا چاہیے اور جہاں جنگل کم ہیں وہاں درخت اور جنگلات اگانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیاں اب اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لیے لکڑی کی عمارتوں کو ترجیح دے رہی ہیں جن میں سلیکان ویلی کی ڈیجیٹل کمپنیاں سر فہرست ہیں۔ حال ہی میں وال مارٹ نے بھی اپنے ہیڈ کوارٹرس کے لیے آرکنسا کے شہر بنٹان ول میں لکڑی کی عظیم عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ 5 منزلہ عمارت 3 لاکھ 32 ہزار مربع فٹ پر محیط ہو گی اور یہ تمام تر لکڑی سے بنائی جائے گی۔ انجینئر اب لکڑی کی ایسی عمارتیں بھی ڈیزائن کر رہے ہیں جو 10 یا اس سے زیادہ منزلہ ہوں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لکڑی کی عمارت پر میٹریل کا خرچ عام عمارتوں کی بہ نسبت 5 سے 10 فی صد تک زیادہ ہوتا ہے لیکن اسے بنانے کے اخراجات نمایاں طور پر کم ہوتے ہیں اور اس کی تعمیر بھی جلد مکمل ہو جاتی ہے۔ لکڑی سے بنی عمارت کی دیکھ بھال اور اس کی مرمت کے اخراجات بھی کم ہوتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ لکڑی کی عمارتیں نہ صرف ماحول دوست ہوتی ہیں اور توانائی بچا کر گلوبل وارمنگ کم کرنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ ان کے اندر انسان تازگی اور فرحت بھی محسوس کرتا ہے۔
انسان ترقی کے نام پر اپنی تباہی کا انتظام خود کرتا آ رہا ہے اور آج اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اسے کوئی راستہ نہیں دکھائی دیتا۔ ایسی صورتحال میں راحت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ اب آلودگی یا گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے ان ایک فیصد لوگوں نے نئی ترکیب کھوج نکالی ہے اور وہ ہے لکڑی سے عمارتوں کی تعمیر۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے واقعی کچھ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں کیونکہ عموماً عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے لوہے، سیمنٹ اور دیگر اشیا کی تیاری کے لیے بڑے بڑے کارخانے لگانے پڑتے ہیں اور وہ کارخانے آلودگی میں اضافہ کا اہم سبب بن رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ماحولیات کو صاف اور آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے درخت اور ہریالی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر عمارتوں کی تعمیر میں لکڑیوں کا استعمال عام ہوگیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس بات پر ابھی ماہرین نے شاید زیادہ توجہ نہیں دی ہوگی۔ درخت بے دردی کے ساتھ کاٹے جائیں گے جس سے فضا میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا توازن یقینی طور پر بگڑ جائے گا اور یہ گلوبل وارمنگ میں اضافہ کا اہم سبب بن جائے گا کیونکہ جس حساب سے درختوں کی کٹائی ہوگی، اس تناسب سے پیڑ پودے نہیں لگائے جائیں گے۔ ہم روزانہ اپنے آس پاس میں بھی یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ آبادی میں اضافہ کے سبب جس بے دردی کے ساتھ درختوں کو کاٹا جاتا ہے، اس کے مقابلے نئے پیڑ پودے نہیں لگائے جاتے۔ بہرحال یہ بات قطعاً فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ آج گلوبل وارمنگ کے لیے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو بھی اہم سبب مانا جاتا ہے۔ 
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS