کوٹا سری راج
(مترجم: محمدصغیر حسین)
کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹوں سے فلائی ایش(باریک راکھ) خارج ہوتی ہے۔ یہ ماحولیات کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے۔ کیوں کہ اس کو غیرمحفوظ طور پر ٹھکانے لگانے یا اس کی غیرموثر ریسائیکلنگ، ہوا کو براہ راست نقصان پہنچا سکتی ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ حرارتی بجلی پر ہمارا انحصار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہم فلائی ایش کے مضر اثرات کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ فلائی ایش ماحول کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کررہی ہے۔
مثال کے طور پر مدھیہ پردیش کے سنگرولی ضلع میں واقع وندھیاچل این ٹی پی سی سپرتھرمل پاور اسٹیشن میں اکتوبر2019 میں فلائی ایش کی مینڈٹوٹ جانے کی وجہ سے تقریباً 35لاکھ میٹرک ٹن فلائی ایش گووند ولبھ پنت ساگر میں گرگئی۔ اس ساگر کو لوگ عام طور پر رہندواٹر ریزروائر(Rihand Water Reservoir) کے نام سے جانتے ہیں۔ اسی طرح اسی ضلع میں منہان میں واقع ایسار پاور پلانٹ میں فلائی ایش کی مینڈٹوٹ جانے کے سبب بڑی مقدار میں فلائی ایش فضا میں داخل ہوگئی۔
رہندذخیرئہ آب میں، فلائی ایش داخل ہوجانے کے سبب ایک بڑی آلودگی نے خطرے کی گھنٹی بجادی اور نیشنل گرین ٹریبونل(National Green Tribunal) نے اپنی کمیٹی کے ذریعہ پیش کی گئی زمینی رپورٹ پر نظرثانی کرتے ہوئے این ٹی پی سی اور ایسار پر دس کروڑ کا عبوری جرمانہ عائد کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ، این جی ٹی نے لینکو-انپرہ (Lanco-Anpara) پاورپلانٹ کو بھی ڈانٹ پلائی کہ وہ فلائی ایش کے تالاب کے لبریز ہوجانے کے بعد فاضل ایش کو ذخیرئہ آب میں جانے سے روکے۔ فلائی ایش نے مٹی کو بھی آلودہ کردیا جس کے نتیجے میں زعی زمینیں بنجر ہوگئیں اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔
فلائی ایش آلودگی کی وجہ سے مٹی، ہوا اور پانی میں پارے(Mercury) کی مقدار بڑھ گئی جس کے نتیجہ میں مقامی آبادی میں صحت سے متعلق پیچیدگیاں پیدا ہوئیں کیوں کہ یہاں کے بہت سارے لوگ رہند ذخیرئہ آب سے پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ تحفظ ماحولیات ایکٹ (Environment Protection Act/EPA) کے تحت وزارت برائے ماحولیات، جنگلات و تبدیلی آب و ہوا نے قانونی نوٹیفکیشن کے ذریعہ یہ حکم صادر کیا ہے کہ فلائی ایش کا صد فی صد استعمال لازمی ہے، لیکن اس کے باوجود ایسے ناموافق حالات پیدا ہورہے ہیں۔
فلائی ایش کے تالاب کی دیواروں کے ٹوٹنے اور اس کے پھیل جانے کے نقصانات کا پورا اندازہ اس وقت ہوا جب مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ(CPCB) اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(IIT)، روڑکی کی مشترکہ کمیٹی نے حال ہی میں ایک تازہ رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں، ایسار پاور لمیٹڈ میں فلائی ایش کے رساؤ سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 7.35 کروڑ روپے اور این ٹی پی سی کے رساؤ سے پیداشدہ نقصانات کا اندازہ 104کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔ کمیٹی نے نقصانات کے تخمینے کی بنیاد دو عوامل پر رکھی تھی۔ ایک یہ کہ فلائی ایش کے ذریعہ ہونے والی آلودگی کو دور کرنے کے مرحلوں میں پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں(GHG) کی مقدار اور دوسرا یہ کہ فلائی ایش کے سبب پانی کی آلودگی کی مقدار۔
آلودگی ہٹانے کے عمل میں ڈیژل سے خارج ہونے والی گیسوں نے کاربن کی سطح میں اضافہ کردیا جس کے نتیجے میں نقصانات کے تخمینے میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اسی طرح آبی ذخیروں میں فلائی ایش کے گھل جانے سے پانی میں بھاری دھاتوں اور معلق ٹھوس اشیاء کی مقدار بڑھ گئی۔ ان تمام چیزوں پر ہونے والے اخراجات نے نقصانات کے ہرجانے کی رقم میں اور اضافہ کردیا۔
آج بھی ہمیں ملنے والی بجلی کا دارومدار تھرمل پاور اسٹیشنوں پر ہے۔ ابھی توانائی کے قابل تجدید وسائل ہماری بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے ہدف سے بہت دور ہیں۔ مزید یہ کہ کوئلہ سیکٹر کے دروازے پرائیویٹ افراد کے لیے کھول دینے کے نتیجے میں، کوئلہ ڈھلائی کی لازمی شرطوں کو نظرانداز کیے جانے کے سبب مستقبل میں فلائی ایش کی پیداوار میں اضافہ ہونا طے ہے۔
فلائی ایش کی زیادہ پیداوار اور نسبتاً کم کھپت کی وجہ سے پورے ملک میں ایش کے تالاب لبریز ہوکر چھلک رہے ہیں، جس کے نتیجے میں تالاب کی مینڈیں آئے دن ٹوٹتی رہتی ہیں اور فلائی ایش نکل کر قرب و جوار کے کھیت کھلیانوں اور پانی کے ذخیروں کو آلودہ کرتی رہتی ہے۔
گزشتہ دس سالوں میں، فلائی ایش تالابوں میں، 627ملین ٹن ایش استعمال کو ترس رہی ہے۔ ہر سال 200ملین ٹن فلائی ایش جمع ہوجاتی ہے۔ 2019 کے اواخر میں،ہندوستان میں ایش کا ذخیرہ 1,647 ملین ٹن تھا جو سالانہ پیداوار کا آٹھ گنا ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان میں ایسے ضابطے موجود ہیں جن کی رو سے فلائی ایش کا صدفیصد استعمال لازمی ہے اور یہ کہ اس مقصد کے لیے استعمال میں لائی جانے والی تکنالوجی بھی موجود ہے، ہم ’’مکمل استعمال‘‘ کے ہدف سے ناآشنا ہیں۔
تعمیراتی اشیاء کی صنعت میں فلائی ایش کے استعمال کو فروغ دینے کی سمت میں سرکاری کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوتی نہیں دکھائی دے رہی ہیں کیوں کہ سرخ اینٹوں پر پابندی کے سرکاری قاعدوں کی کھل کر خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں آج بھی بنایا، بیچا اور استعمال کیا جارہا ہے۔ سرخ اینٹیں مٹی کی اوپری پرت سے بنائی جاتی ہیں جو ہماری ماحولیات کا ایک بیش قیمت جز ہے۔ مٹی کی محض ایک انچ موٹی اوپری پرت کے بننے میں کم و بیش پانچ لاکھ سال لگتے ہیں۔ چٹانو ں کے ٹوٹنے اور رفتہ رفتہ کٹنے کے عمل سے مٹی بنتی ہے۔
اگر حکومت پورے ملک کے دیہی علاقوں کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے اینٹ بھٹوں کو بند نہیں کرسکتی تو یہ بھی طے ہے کہ حکومت تعمیراتی اشیاء کی اندسٹری میں فلائی ایش کے استعمال کو فروغ نہیں دے سکتی۔ جب تک روایتی سرخ اینٹیں بازار میں آسانی سے دستیاب ہوتی رہیں گی، خریدار انہیں ہی خریدتے رہیں گے۔ ایک بار سرخ اینٹوں کی فراہمی کا سلسلہ ٹوٹ جائے تو نہ صرف بیش قیمت مٹی ضائع نہ ہوگی بلکہ ان بھٹوں میں ایندھن کی طرح استعمال ہونے والے ڈیژل اور گتے کی کھوٹی سے پیداشدہ آلودگی سے بھی نجات ملے گی۔
جپسم اور چونا ملاکر فلائی ایش سے اینٹیں بنائی جاسکتی ہیں۔ یہ اینٹیں نہ صرف ماحول موافق ہوتی ہیں بلکہ سرخ اینٹوں کے مقابلے میں ہلکی اور زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ آج ایسی تکنالوجیاں موجود ہیں جن کو بروئے کار لاکر ماحول موافق سی این جی سے آٹوکلیوبھٹیوں میں فلائی ایش اینٹیں بنائی جاسکتی ہیں۔ ایسی بھٹیوں میں، آٹھ گھنٹوں کے اندر 22,000 فلائی ایش اینٹیں تیار ہوتی ہیں۔
چنانچہ، اگر ملک کے تھرمل پاور پلانٹس پر لازم کردیا جائے کہ وہ آٹوکلیو تکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ فلائی ایش اینٹوں کی ایک مقررہ تعداد بنائیں گے تو فلائی ایش کا مسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔ فلائی ایش کے صدفیصد استعمال کے طریقے موجود ہیں، بس اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مضبوط سیاسی قوت ارادی کی ضرورت ہے۔(بشکریہ: پائنیر)
(صاحب مضمون ایک ماحولیاتی صحافی ہیں)