بھارت دوسرے نمبر پر

0

کورونا وائرس ابھی بھی کنٹرول سے باہر ہے۔ روس نے ویکسین بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس دعوے پر کم لوگوں کو یقین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس خود کو بدلتا رہتا ہے۔ یہ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کہ آپ نے سانپ کے لیے دوا بنانی شروع کی لیکن اسے پلانے کا وقت آیا تو سانپ نے بچھو کی شکل اختیار کر لی۔ ایسی صورت میں اس دوا کی اہمیت کیا رہ جائے گی۔ اس کے باوجود کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اگر روس کی ویکسین واقعی کارگر ہے تو یہ وطن عزیز ہندوستان کے لیے بے حد خوشی کی بات ہوگی، کیونکہ روس سے پچھلی کئی صدیوں سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، روس ان ملکوں میں شامل ہے جن سے ہندوستان سب سے زیادہ ہتھیار خریدتا ہے۔ روس کی ویکسین اگر کورونا کے خلاف کامیاب ہو جاتی ہے تو مودی حکومت اسے امپورٹ کرنا چاہے گی تاکہ ہندوستان کے لوگوں کی جانیں بچائی جا سکیں، لوگوں کو کورونا کے خوف سے نجات دلائی جا سکے مگر یہ مستقبل کی باتیں ہیں۔ فی الوقت تشویش کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے، اس کے اثرات کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے، اس کے متاثرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ 5 ستمبر کو وطن عزیز میں کورونا متاثرین کی تعداد 90600 تھی تو 6 ستمبر کو یہ تعداد 91723 ہو گئی اور آج متاثرین کی تعداد کیا رہتی ہے، یہ کہنا مشکل ہے، البتہ یہ کہنے میں تامل کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ کورونا متاثرین کی تعداد آنے والے کسی بھی دن ایک لاکھ سے متجاوز کر جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
وہ لوگ جنہیں یہ یقین ہے کہ ان کی موت کا بہانہ وہی بنے گا جسے بننا ہے، جہاں مرنا ہے وہیں مریں گے اور جس وقت مرنا ہے اسی وقت مریں گے، وہ لوگ احتیاطی تدابیر تو کرتے ہیں مگر کورونا انہیں ڈرانے کا اہل نہیں، البتہ زندگی اور موت کے فلسفے سے ناواقف لوگوں کو کورونا نے دہشت زدہ کر رکھا ہے، سرکاریں اَن لاک کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی ہیں، دکانیں کھل رہی ہیں مگر صارفین ندارد ہیں، کیونکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خود ساختہ لاک ڈاؤن سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ ’جان ہے تو جہاں ہے‘کا فلسفہ ہی اس کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ کورونا کے بالوسطہ منفی اثرات سے پیدا ہوئی بے روزگاری اور مفلسی مہلک بنتی جا رہی ہیں، جی ڈی پی کی شرح نمو کا -23.9فیصدرہنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ کورونا متاثرین کی تعداد ایک ہزار بھی نہیں تھی تو ملک گیر لاک ڈاؤن کی ضرورت محسوس کی گئی اور اب ایک دن میں متاثرین کی تعداد نوے ہزار سے زیادہ ہورہی ہے تو پھر لاک ڈاؤن کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی جاتی؟ شروع میں ہی یہ بات سمجھ لی جاتی کہ کورونا کو ختم کرنے کی لڑائی قلیل عرصے تک نہیں چلے گی یا کورونا کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا تو آج اقتصادی حالت بہتر ہوتی، کورونا کے ساتھ بے روزگاری اور مفلسی لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی وجہ نہیں بنتیں مگر کورونا وائرس کے ابھرنے سے اب تک کے حالات پر غور کیجیے تو یہ بات فہم سے بالاتر نہیں رہ جاتی کہ ڈبلیو ایچ او نے نہایت غلط رول ادا کیا ہے، اس نے بروقت صحیح اطلاع نہیں دی، خوف کی تشہیر میں معاون بنا۔ کورونا وائرس ایک عالمی وبا نہیں، بلکہ عالمی اقتصادیات تباہ کر دینے اور نیو ورلڈ آرڈر بنانے کی ایک سازش معلوم ہوتی ہے، اس زاویے سے تحقیق کی جانی چاہیے تاکہ حقیقت سامنے آئے اور ڈبلیو ایچ او کا اصل رول بھی دنیا کی سمجھ میں آسکے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ اور ذمہ دار لوگ خود کو اگر بھولا ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ بتانا چاہیے کہ تائیوان نے جب شروع میں ہی یہ بات کہہ دی تھی کہ کورونا وائرس ایک متعدی وبا ہے، یہ وائرس ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں پھیلتا ہے تو اس کی بات کو اہمیت کیوں نہیں دی گئی؟ سچ تو یہ ہے کہ جن ملکوں نے ڈبلیو ایچ او کی باتوں پر زیادہ عمل نہیں کیا یا بالکل عمل نہیں کیا اور اپنے طریقے سے کورونا پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی، انہیں ملکوں کے حالات آج بہتر ہیں۔ متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے جنوبی کوریا ابتدائی دنوں میں ٹاپ 5 ملکوں میں شامل تھا، آج وہ ٹاپ 70 ملکوں میں بھی شامل نہیں ہے۔ جاپان کورونا پر کنٹرول رکھنے میں کسی حد تک آج بھی کامیاب ہے۔ نیوزی لینڈ میں متاثرین کی تعداد دو ہزار بھی نہیں، وہاں پچھلے ساڑھے چار مہینے میں متاثرین کی تعداد کسی دن بھی 20 تک نہیں پہنچی۔ دوسری طرف اسپین، فرانس، جرمنی، برطانیہ میں کورونا نے پھر سے تیور دکھانے شروع کر دیے ہیں۔ فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ جلد ہی اچھے دن آئیں گے مگر اچھے دن کی امید ضرور رکھنی چاہیے، کیونکہ یہ امید اگر ختم ہو گئی تو کورونا وائرس سے جنگ اور مشکل ہو جائے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS