کے حالات اگر بہتر ہوں، ملک میں کسی بھی وجہ سے حالات چنوتی بھرے نہ ہوں تو اقتصادی بدحالی ڈراتی نہیں ہے، حالات کی مثبت تبدیلی کی ایک امید سی رہتی ہے مگر فی الوقت کورونا وائرس نے دنیا بھر کے ملکوں کو پریشان کررکھا ہے، اسپین اور فرانس جیسے ملکوں میں کورونا وائرس پھر تیور دکھانے لگا ہے تو وطن عزیز ہندوستان میں اس نے اثرات کا دائرہ کافی وسیع کرلیا ہے، ایسی صورت حال میں عام دنوں کی طرح اقتصادی سرگرمیوں کا چلنا مشکل ہے۔ اسی لیے بڑھتی ہوئی بے روزگاری مسئلہ سی نظر آرہی ہے۔
شہروں اور دیہاتوں، دونوں ہی جگہوں پر بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ شہروں میں بے روزگاری کس حد تک بڑھ چکی ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہاں تقریباً ہر 10میں سے ایک آدمی بے روزگار ہے۔ جولائی میں شہروں میں بے روزگاری 9.19فیصد تھی، یہ اگست میں 9.83 فیصد ہوگئی یعنی جولائی کے مقابلے اگست میں بے روزگاری میں 0.64 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح جولائی میں دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 6.66فیصد تھی، یہ اگست میں 7.65فیصد ہوگئی یعنی جولائی کے تقابل میں اگست میں بے روزگاری میں 0.99 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں ہے کہ شہروں کے مقابلے دیہی علاقوں میں بے روزگاری بڑھی ہے اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ابھر کر سامنے آئی ہے کہ کھیتی کے کام میں کمی آئی ہے۔ آخر کھیتی کے کام میں کمی آنے کی وجوہات کیا ہیں، یہ جاننا اس لیے ضروری ہے کہ پہلی سہ ماہی میں اس حالت میں زراعت کی صورت حال اچھی رہی ہے جبکہ جی ڈی پی کی شرح نمو23.9فیصد رہی۔
ہندوستان وہ واحد ملک نہیں ہے جہاں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں ڈونالڈٹرمپ نے بے روزگاری کو بڑی حد تک کنٹرول کرلیا تھا۔انہیں اطمینان تھا کہ لوگوںکو روزگار دلانے کے سلسلے میں کامیابی ان کی انتخابی مہم کو آسان بنائے گی مگر کورونا وائرس کی وجہ سے وہاں بے روزگاری میں اچانک اضافہ ہونا شروع ہوا۔ ایک وقت امریکہ میں 4کروڑ بے روزگار ہوگئے تھے یعنی اس کی مجموعی آبادی میں 10فیصد سے زیادہ لوگ بے روزگار تھے لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ امریکہ کی آبادی ہندوستان کی آبادی سے 4گنا کم ہے۔امریکہ کی اقتصادی حالت ہندوستان کی اقتصادی حالت سے کہیں بہتر ہے۔ اس کی اکنامی ہندوستان کی اکنامی سے 6گنا زیادہ ہے، وہ سپرپاور ہے، دنیا بھر کی کمپنیاں وہاں سرمایہ لگانا چاہتی ہیں، اس لیے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو ملک کی موجودہ اقتصادی حالت کی ہی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے اور اس کی مناسبت سے روزگار کے نئے مواقع فراہم کرانے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کام کیا جانا چاہیے، کیوں کہ ملک کی اقتصادی تنزلی کی طرح بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی کافی حساس ایشو ہے، اس پر بروقت اور سنجیدگی سے توجہ دی جانی چاہیے، بے روزگار لوگوں کو یہ امید بندھائی جانی چاہیے کہ حکومت ان کے حالات سے بے خبر نہیں ہے، انہیں روزگار کی فراہمی میں کورونا رکاوٹ نہیں بنے گا۔
حکومت کا روزگار فراہم کرانے پر سنجیدگی سے توجہ دینا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ جب بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے تو غیرسماجی عناصر کی تعداد بھی بڑھنے لگتی ہے۔ خودکشی کی اہم وجوہات میں سے ایک اہم وجہ بے روزگاری بھی مانی جاتی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کی رپورٹ کے مطابق، 2018میں ہر 4گھنٹے میں ایک بے روزگار نے خودکشی کی۔ 2019میں بھی بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کرنے والوں کی خاصی تعداد رہی، چنانچہ وزیرخزانہ نرملا سیتارمن کو بلاتاخیر یہ بتانا چاہیے کہ بے روزگاری دور کرنے کے لیے ان کے پاس کیا منصوبہ ہے، کیوں کہ یہ بات اب ناقابل فہم نہیں رہ گئی ہے کہ کورونا سے نجات آسانی سے نہیں ملے گی، بے روزگاری ختم کرنے کے لیے کورونا کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا جاسکتا۔
[email protected]
مسئلہ بنتی بے روزگاری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS