سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
وادیٔ کشمیر کو جہاں ایک طرف کووِڈ19- نے بُری طرح گھیرا ہوا ہے تو وہیں دوسری جانب یہاں کے نوجوان غیر محسوس انداز میں بڑی تیزی کے ساتھ منشیات کے عادی ہوکر موت کے منھ میں جا رہے ہیں۔حالیہ مہینوں میں منشیات کا استعمال بڑھا ہی نہیں ہے بلکہ جانکاروں کی مانیں تو ہیروئن کا کاروبار ایک ’’صنعت‘‘کی شکل لینے کو تیار ہے جسکے لئے سرکاری ’’غیر ریاستی آلہ کاروں‘‘ اور ’’غیر ریاستی حلقے‘‘سرکار کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
حالانکہ دنیا کے تقریباََ سبھی علاقوں کی طرح جموں کشمیر میں بھی منشیات کے استعمال کی خبریں کئی سال سے گشت میں ہیں لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ یہ بدعت قابو ہونے کی بجائے پھیلتی ہی جارہی ہے۔وادیٔ کشمیر میں منشیات کے استعمال میں اس حد تک تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ یہاں کے ڈاکٹروں کی ایک تنظیم،ڈاکٹرس ایسوسی ایشن آف کشمیر یا ڈٰ اے کے، کو گذشتہ دنوں یہ اپیل کرنا پڑی کہ اگر سماج نے اس جانب توجہ نہیں دی تو بڑی دیر ہوجائے گی۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق منشیات کے عادی نوجوانوں کی تعداد میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ نئے نئے علاقے اس بدعت سے متاثر بلکہ تباہ ہونے لگتے ہیں۔ذرائع کی مانیں تو منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں ہورہے اضافہ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حالت بگڑنے پر یا گھر والوں کی جانب سے نشے کی لت چھڑانے کی کوشش میں اسپتال لائے جانے والے نشہ بازوں کی تعداد میں بھی زبردست اضافہ ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔سرینگر کے ایک اسپتال میں نشے کے عادی لوگوں کے علاج کیلئے مختص شعبہ کے ایک ذمہ دار نے 2016-17 سے لیکر گئے سال کے وسط تک کے اعداد و شمار کا گراف دکھاتے ہوئے بتایا کہ کس طرح یہاں علاج کیلئے آںے یا لائے جانے والوں کی تعداد 489 سے بڑھتے بڑھتے چار ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسپتال کے مذکورہ شعبہ میں آنے والوں کی تعداد نشہ بازوں کا محض چند ایک فیصد ہے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں یا تو انکی حالت خراب ہونے پر اسپتال پہنچایا جاتا ہے یا جنکے گھر والے انہیں کسی بھی طرح ابتدأ میں ہی اسپتال لے آںے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انکے یہاں لڑکے ہی نہیں بلکہ کئی لڑکیاں بھی آتی ہیں جو شراب سے لیکر براؤن شوگر اور بوٹ پالش سے لیکر ہیروئن تک کئی طرح کا زہر کھانے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سرینگر کے شعبۂ نفسیاتی امراض سے وابستہ ڈاکٹر عطیہ کا کہنا ہے کہ انکے یہاں 16سال سے کم اور چالیس سال سے زیادہ عمر کے متاثرین کو بھی لایا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ معصوم بچوں کو منشیات کے چنگل میں پھنسے دیکھ کر انہیں بُرا بھی لگتا ہے اور تشویش بھی ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ سے ہیروئن کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ جی ایم سی کے ہی ایک اور ڈاکٹر نے ،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا، کہ حالیہ مہینوں میں انہوں نے اسپتال آنے والے نشہ بازوں کی اکثریت کو ہیروئن کا عادی پایا۔انہوں نے کہا ’’معلوم نہیں کہ اسکی وجہ کیا ہے لیکن میرے خیال میں حالیہ مہینوں میں ہیروئن کا استعمال بڑھ گیا ہے۔یہ ایک خطرناک نشہ ہے جسکے عادی کی ساری زندگی بدل جاتی ہے اور اس نشے کی لت کو چھڑانا آسان نہیں ہوتا ہے‘‘۔
منشیات کی عادی رہ چکی ایک نوجوان لڑکی فیروزہ (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ دو سال قبل ایک سہیلی کے ذرئعہ منشیات کی لت کا شکار ہوگئی تھیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ وہ کئی دنوں تک اسپتال میں بھرتی رہنے کے بعد اس لعنت سے جان چھڑانے میں کامیاب تو رہی ہیں لیکن ابھی انکی زندگی واپس پٹری پر نہیں آسکی ہے۔ انہوں نے کہا ’’یہ ایک بہت خطرناک چیز ہے،ایک بار لت لگ گئی تو سمجھیں زندگی تباہ‘‘۔
پولس کا الزام ہے کہ وادیٔ کشمیر میں جنگجوؤں کی جانب سے منشیات کو فروغ دیا جارہا ہے۔حالیہ دنوں میں جموں کشمیر پولس نے ایک سے زیادہ مرتبہ اخباری بیانات جاری کرتے ہوئے علیٰحدگی پسند جنگجوؤں پر رقومات کے حصول کیلئے منشیات کا کاروبار کرنے کا الزام لگایا تاہم جنگجوؤں کی جانب سے کئی بار اس طرح کے الزامات رد کئے جاتے رہے ہیں بلکہ انکا جوابی الزام ہے کہ سرکاری ایجنسیاں کشمیری نوجوانوں کو ایک ’’خاص مقصد سے‘‘ منشیات کا عادی بنانا چاہتی ہیں۔حالیہ دنوں میں پولس نے منشیات سمگلروں کے کئی گروہوں کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے انکے تار علیٰحدگی پسند جنگجوؤں کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں تک کی ہیں تاہم شمالی کشمیر کی ایک نامور کراٹے چمپئین کا یہ الزام بھی تازہ ہے کہ پولس اور منشیات اسمگلروں کا ساز باز ہے۔ مذکورہ نے پولس پر انکے چھوٹے بھائی کو منشیات کا عادی بنانے والے مجرموں کو تحفظ دینے تک کا الزام لگایا ہے جسکی حالانکہ پولس نے تردید کی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں پر منشیات کو فروغ دینے کا الزام لگانا مناسب ہے یا نہیں لیکن جب تک منشیات کے قلع قمع کیلئے سخت ترین قوانین بناکر نافذ نہیں کئے جاتے تب تک کوئی کسی پر بھی الزام لگاتا پھرے یہ بدعت پھل پھولتی ہی رہے گی۔