’’مولانا حسرت موہانی فائونڈیشن‘‘
نئی دہلی: ہندوستان کے مشہورمجاہد آزادی شاعرصحافی پارلیمنٹ ٹرین مولاناحسرت موہانی کی یوم وفات 13مئی کو ایک میٹنگ ڈاکٹرنفیس احمد صدیقی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ،مکان نمبر 573گلی 7ذاکرنگر نئی دہلی 25،میں 13مئی کو منعقد ہوئی اورمذکورپارلیمنٹ ٹرین کو ایک قرارداد جوجنرل سکریڑی شاہد پرویز
کی قرارداد کومتفقہ طورسے پاس کیاگیاجس میں خصوصاً ہندوستانیوں کو مرحوم مولانا حسرت موہانی اوران کی خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے؟’’حکومت
ہند‘‘تمام ریاستی حکومتوں سے گذارش کی گئی کہ مجاہد آزادی جس نےسب سے پہلےمکمل آزادی کی قرارداد پیش کی جس میں موصوف کو گرفتارکیا گیا مقدمہ بھی چلا
سزا بھی ہوئی۔ احمدآباد ڈسٹرکٹ جج کی عدالت نے دفعہ 124Aتعزیرات ہند (IPC)میں دوسال کی سزا سنائی اوردفعہ IPC 121میں پھانسی کی سزا ہوسکتی تھی،ڈسٹرکٹ جج کو اختیارنہیں تھا،ممبئی ہائی کورٹ نےاس مقدمے کی سماعت کی جس میں حسرت نےخود بحث کی کیونکہ اس مقدمہ کی پیروی کرنے کئے لئے کوئی
ایڈوکیٹ تیارنہیں تھا۔ حسرت موہانی نے کہا اور دلیل دی کہ اس نے بندوق نہیں اٹھائی البتہ ایک آئڈیا مکمل آزادی کا 1921کی کانگریس اور دیگر جماعتوں میں پیش کیا
تھا کوئی آئیڈیا قابل سزانہیں ہوتا۔ ممبئی ہائی کورٹ نےان کی اس مدلل بحث کو تسلیم کرتےہوئے وہ ریفرنس جو ڈسٹرکٹ جج مسٹرڈی سوزا نے بھیچا تھا کو مسترد
کرتے ہوئے اس ریفرنس کو مسترد کردیا اور مولانا حسرت موہانی کو بےداغ بری کردیا۔ لیکن حسرت موہانی نے دفعہ IPC 124Aکی اپیل نہیں کی تھی اس لئے ان
کو1922 سے1924 تک قید میں یروڈا سینٹرل جیل میں رہنا پڑا۔ اس مقدمہ کی بہت زیادہ پبلسٹی ہوئی جس سے مولانا حسرت موہانی نوجوان ہندوستانیوں کے پیرو بن
گئے جس میں سب سے خاص بھگت سنگھ تھے جو ان سے ملنے 1924میں کانپور آئے ۔حسرت موہانی نےبھگت سنگھ کو ایک ہندی اخبار میں نام بدل کر رکھدیا۔ یہیں
سے نوجوانوں کی مٹینگ بھگت سنگھ، چندرشیکھر آزاد وغیرہ نےنوجوان سبھا کی تشکیل کی ۔حسرت موہانی نے’’انقلاب زندہ باد‘‘کا نعرہ ان نوجوانوں کو دیا جو
سارے ہندوستان میں گونجنے لگا۔ پھر کیا تھا ان نوجوان ہندوستانیوں میں جوش پیدا کردیا۔حسرت موہانی نے برطانوئی کپٹروں کا بائیکاٹ کی قرارداد پاس کرائی ۔حسرت
موہانی کا یہ مقدمہ AIR 1922صفحہ 382میں حسرت موہانی بنام امیردرج ہےجو ایک تاریخی اوراہم مقدمہ ہے۔
ان کا یہ شعر :
ہم خاک میں ملنے سے ناپید نہ ہونگے
دنیا میں نہ ہونگے تو کتابوں میں ملیں گئے