رمضان کا دسترخوان اور کھجوریں غائب،کرونا وائرس کے ڈر سے لوگ چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں

    0

    سرینگر: صریر خالد،ایس این بی
    کشمیر میں یوں تو ماہِ رمضان کا ماحول سرگرم اور منفرد ہوتا ہے تاہم بازاروں میں رمضان کی آمد یا اس مقدس ماہ کے جاری ہونے کا اصل اندازہ قسم در قسم کھجوروں کی خریدوفروخت سے ہوتا ہے۔اس مسلم اکثریتی علاقہ میں،جہاں کھجوروں کی کاشت نہیں ہوتی ہے،کھجور اور رمضان گویا ساتھ ساتھ چلتے ہیں یہاں تک کہ کھجوروں کے بغیر رمضان کا تصور ہی نہیں ہے تاہم اب کے صورتحال یکسر مختلف ہے۔کہیں پر کھجوروں کا اسٹاک دستیاب ہی نہیں ہے تو کہیں دستیاب ہونے کے باوجود انہیں چھکنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔کرونا وائرس نے سب کچھ تتر بتر کردیا ہے۔
    حالانکہ ماہرین نے کووِڈ 19-کے حوالے سے کسی خاص چیز کا کھانا منع تو نہیں کیا ہے تاہم لوگ اس حد تک ڈرے ہوئے ہیں کہ یعنی چھاج کو پھونک پھونک کر پینے کا معاملہ ہے۔ سرینگر کی ایک گھریلو خاتون سید شائستہ کہتی ہیں ’’کھجوروں کے بغیر افطار بد مزگی کا شکار ہوگی بلکہ خالی خالی محسوس ہوگا لیکن کیا کیجئے گا کہ صورتحال ہی ایسی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کی آمد سے کچھ دن پہلے ہی انہوں نے کھجوروں کا ایک پیکٹ لایا ہوا تھا لیکن اسے کھول کر استعمال کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’کرونا وائرس کے حوالے سے جتنی احتیاطیں بتائی جارہی ہیں اسے دیکھتے ہوئے کھجور کھانا محفوظ معلوم نہیں ہوتا ہے،کیا پتہ کہاں سے آئی ہوں گی،کس نے اور کس طرح پیک کیا ہوگا،بہتر ہے کہ اسکے بغیر ہی گذارہ کر لیا جائے‘‘۔
    کھجور کا عرب دنیا کے ساتھ خاص تعلق ہے کہ بیشتر عرب ممالک میں بڑے پیمانے پر کھجور کی کاشت ہوتی ہے اور پھر یہ میرہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک طرح کی عقیدت سی ہے۔رمضان کا روزہ کھولنے کیلئے ترجیحی طور کھجور کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ رمضان میں دنیا بھر میں کھجور کی بڑی کھپت ہوتی ہے۔ علماٗ کا کہنا ہے کہ اگرچہ کھجور سے روزہ کھولنا کوئی شرط تو نہیں ہے لیکن دستیاب ہو تو اس سے روزہ کھولنا یقیناََ بہتر ہے اور اسکا ثواب زیادہ ہے۔
    کشمیر کے مسلمان معاشرے میں مالی حالت سے قطع نظر لوگ کھجور کھانے سے ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ رمضان میں مبروم،کلامی اور مریم سے لیکر مہنگے ترین اجوا کھوجور تک استعمال کئے جاتے ہیں۔ چناچہ صاحبانِ ثروت راستوں پر کھڑا ہوکر یا مساجد میں دسترخوان لگاکر لوگوں کو روزہ کھولنے کیلئے کھجور پیش کرتے آئے ہیں جبکہ افطار کے وقت کھجور کھانے کیلئے بچوں میں خاص قسم کا اُتاولا پن مشہور ہے۔ اب کی بار تاہم بچوں کو بھی بڑی مایوسی ہورہی ہے۔ جیسا کہ سید شائستہ کہتی ہیں ’’بڑوں کی تو خیر الگ بات تھی لیکن ان بچوں کا کیا کریں،ایک طرف انکا مسجد جاکر جوش و خروش دکھانا بند ہوا ہے تو دوسری جانب کھجور وغیرہ بھی انہیں نہیں ملیں گے،اللہ کرے کہ یہ وائرس جلد دفع ہوجائے‘‘۔
    سرینگر میں کرونا وائرس کے مرض کے مقابلے میں مصروف سرکردہ ڈاکٹر پروفیسر نوید نذیر نے حال ہی ایک ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھجور کا استعمال کرنے سے قبل اسے اچھی طرح سے دھویا اور پھر کئی دنوں کیلئے سوکھنے کیلئے چھوڑا جانا چاہیئے۔حالانکہ کئی دیگر ڈاکٹروں نے انکے برعکس کھجور کیلئے کوئی اضافی احتیاط برتنے کو غیر ضروری بتایا ہے لیکن لوگ محتاط ہیں۔
    تاجروں کا کہنا ہے کہ رمضان میں فقط وادیٔ کشمیر کے اندر کروڑوں روپے مالیت کے کھجور استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن ابھی صورتحال انتہائی مایوس کُن ہے۔سرینگر میں ایک تاجر انمجن کے صدر نذیر احمد نے بتایا کہ دکانداروں کے پاس موجود کھجور اور دیگر خشک میوؤں کا فقط 10  فیصد ہی بیچا جاسکا ہے اور بازار میں کھجور کی کوئی مانگ نہیں ہے۔ سرینگر میں سب سے بڑی سبزی و میوہ منڈی ،واقع پارمپورہ قمرواری، کے صدر بشیر احمد بشیر کے مطابق اب کے کھجوروں کی کوئی مانگ نہیں ہے۔انہوں نے کہا ’’عام حالات میں رمضان کے دوران کھجوروں کا کاروبار سب سے آگے ہوتا تھا لیکن آج کوئی پوچھتا تک نہیں ہے۔ایک طرف لوگ باہر سے آنے والی گیلی چیزوں کے استعمال سے ڈر رہے ہیں تو دوسری جانب تالہ بندی کی وجہ سے دکانداروں کا منڈٰ پہنچکر مال لیجانا اور پھر فروخت کرنا نا ممکن ہوگیا ہے پھر لوگوں کی مالی حالت بھی بہت متاثر ہوچکی ہے‘‘۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS