بانڈی پورہ: صریرخالد،ایس این بی
کرونا وائرس کے قہر سے ساری دنیا کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر بھی سہما ہوا ہے تاہم شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کا گنڈ جہانگیر نامی یہ گاؤں کچھ زیادہ ہی خوفزدہ ہے۔کرونا نے اس گاؤں کو گویا تباہ کردیا ہے کہ ابھی تک اس چھوٹے سے گاؤں میں کم از کم 26 افراد وائرس کا شکار ہوئے ہیں اور یہ گنتی بڑھتی جارہی ہے۔
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق اس گاؤں کی آبادی قریب ساڑھے تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے لیکن آج یہاں کا دورہ کیجئے،یہ انسانوں کی بجائے کسی نہ دکھائی دینے والی مخلوق کی بستی معلوم ہوتی ہے۔ دور دور تک کہیں کوئی نظر نہیں آرہا ہے اور یہاں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں یوں ویران ہے کہ جیسے دہائیوں سے یہاں کوئی انسان نہ گذرا ہو۔ اپنے دو منزلہ مکان کی اوپری منزل کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے ایک نوجوان بشیر احمد نے کہا’’پورا علاقہ سہما ہوا ہے،ہم سب گھروں میں دُبکے ہوئے ہیں کیونکہ باہر نکلنے سے وائرس کا شکار بننے کا خطرہ ہے‘‘۔انہوں نے کہا ’’جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ہمارا گاؤں کرونا کا بدترین شکار ہے لہٰذا ہم بہت زیادہ خوفزدہ ہیں‘‘۔
سرینگر سے کوئی پچاس کلومیٹر دور گنڈ جہانگیر کا گاؤں لگ بھگ ساڑھے چار سو گھرانوں پر مشتمل ہے اور عام حالات میں یہ چہل پہل کیلئے پہچانی جانے والی ایک بستی ہے۔گاؤں میں ابھی تک بچوں، بزرگوں،جوانوں اور خواتین سمیت 26 افراد کرونا کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ ایک شخص اس مہلک بیماری کی وجہ سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔گاؤں کے سینکڑوں لوگوں کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کا شُبہ ہے۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ کرونا کی وجہ سے لقمۂ اجل بن چکے یہاں کے ایک بزرگ کے بیمار ہونے کی وجہ ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے،وہ حالیہ دنوں میں گاؤں سے کہیں باہر گئے تھے اور نہ ہی انکی دانست میں ایسی کوئی ملاقات ہی ہے کہ جو انہیں کرونا کا شکار بنانے کی وجہ بن گئی ہوگی۔ گاؤں والوں کو یقین ہے کہ انہیں پڑوس کے نائید کھئی نامی گاؤں ،جہاں ابتداٗ میں تین افراد کرونا میں مبتلا پائے گئے تھے، سے انفکشن لگا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نائید کھئی کے تینوں مریض سوپور کے اس شخص سے مل کر بیمار ہوئے تھے کہ جو جموں کشمیر میں کرونا کی بیماری سے لقمۂ اجل بننے والے پہلے شخص بن گئے ہیں۔ مذکورہ کی عمر 67 سال تھی اور وہ تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں شرکت کرکے بیرون ریاست سے وائرس لیکر لوٹے تھے۔
بانڈی پورہ میں کرونا وائرس کی روکتھام کے پروگرام کے ساتھ منسلک ایک ڈاکٹر نے کہا ’’یہ علاقہ بلکہ سارا بانڈی پورہ ضلع بہت بری طرح متاثر ہوا ہے،ابھی تک ضلع کے 50 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے اور درجنوں ٹیسٹس کی رپورٹ آنا باقی ہے‘‘۔ مذکورہ ڈاکٹر نے کہا ’’ہمیں امید ہے کہ سب ٹھیک ہوگا لیکن یہ خدشہ بھی ہے کہ آنے والی رپورٹس میں کئی بری خبریں پنہاں ہوسکتی ہیں‘‘۔
بانڈی پورہ کے اہم شریف نامی گاؤں میں قائم ایک بنک کے منیجر کا کہنا ہے ’’یہ سارا علاقہ خوفناک منظر پیش کررہا ہے،ایک ہی گھر میں کرونا کے کئی کئی مریض یہاں تک کہ کئی بچے بھی اس بیماری میں ملوث ہیں۔حالانکہ سرکاری انتظامیہ کافی سرگرم ہے لیکن میرے خیال میں اس علاقے میں ٹیسٹنگ بہت سُست رفتاری سے ہورہی ہے‘‘۔
بانڈی پورہ کا علاقہ دوردراز ہونے کے باوجود تعلیمی لحاظ سے بڑا زرخیز ہے اور ساتھ ہی اسے شہرۂ آفاق جھیلِ وُلر کا میکا بھی کہا جاسکتا ہے۔سرینگر سے بانڈی پورہ کے کسی بھی گاؤں تک کا راستہ نہایت خوبصورت مناظر لئے ہوئے ہے لیکن آج ایسا لگتا ہے کہ وہ سارے نظارے ویرانیوں کی دھند میں کہیں غائب ہیں۔ گنڈ جہانگیر سے واپس لوٹتے ہوئے ایک جگہ ادھیڑ عمر کی دو خواتین نظر آئیں جنہوں نے منھ پر ماسک لگارکھے تھے،انہوں نے نہایت پریشانی کے جذبات کے ساتھ بتایا’’ان دنوں میں ہمارے یہاں مقامی اور بیرونی سیاحوں کی آمد شروع ہوگئی ہوتی تھی لیکن ابھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے قیامت آگئی ہے،کہیں کوئی دکھائی بھی نہیں دے رہا ہے بلکہ خوف کی حکمرانی ہے‘‘۔
بانڈی پورہ کا ایک گاؤں جس کو کرونا نے بھوتوں کی بستی بنا دیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS