جمہوریت میں بدامنی کی اجازت نہیں

0

اُپیندررائے:سہارا نیوز نیٹ ورک کے سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف 
جمہوریت ایسا حکمرانی کا نظام ہے جس میں عوام کو سب سے اوپر رکھا گیا ہے۔ اسی طرح تمام حکمرانی کے نظاموں کے مقابلہ جمہوریت کی کشش کو سب پر فائق سمجھا گیا ہے۔ آزادی کی سات دہائیوں سے بھی زیادہ وقت گزر جانے کے بعد تمام چیلنجوں سے گزرتے ہوئے نہ صرف جمہوریت کی کشش برقرار ہے بلکہ اس میں پہلے سے کہیں زیادہ بہتری آئی ہے۔ جمہوریت جہاں لوگوں کو اظہاررائے کی آزادی دیتی ہے وہیں اس پر اختلاف یا مخالفت کا حق اسے اور خوبصورت بنادیتا ہے۔ملک کے سابق صدر پرنب مکھرجی نے بھی حال ہی میں رائے عامہ کو جمہوریت کی لائف لائن بتایا ہے۔ جمہوریت میں سبھی کی بات سننے، خیالات کا اظہار کرنے، مشورہ کرنے، بحث و مباحثہ کرنے اور یہاں تک کہ اختلاف رائے کا اہم مقام ہے۔ لیکن اختلاف رائے کا یہ حق جب ذمہ داری سے متنفر ہوکر بدامنی کی صورت حال اختیار کرجائے تو جمہوریت کی خوبصورتی کے لےے یہ خطرہ بھی بن جاتا ہے۔
ملک کی راجدھانی دہلی کے شاہین باغ علاقہ سے اٹھ رہی اختلاف رائے کی آواز میں خطرے کی یہ آہٹ سنائی دینے لگی ہے۔ شاہین باغ کی مسلم خواتین کی یہ تحریک اس خوف میں اپنی زمین تلاش رہی ہے کہ شہریت قانون میں تبدیلی اور این آر سی دونوں مسلمانو ںکو اس ملک سے بے دخل کرنے کے لےے لائے جارہے ہیں۔ تقریباً سات ہفتے قبل شروع ہوئی یہ مخالفت ہٹ دھرمی کی حد تک پار کرکے اب ’بغاوت‘کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ملک کے کسی بھی شہری کے ساتھ تفریق نہ ہونے دینے کی وزیراعظم نریندر مودی کی یقین دہانی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سنوائی شروع ہوجانے کے باوجود اگر عدم اعتماد کا جذبہ برقرار رہتا ہے تو اسے بغاوت نہیں تو پھر کیا کہا جائے۔
سوال صرف عدم اعتماد کا ہی نہیں، بلکہ اس احتجاج سے پھیل رہی بدامنی کا بھی ہے۔ سماج کے ایک طبقہ کی ’خوف‘ سے آزادی کی چاہت نے علاقہ کے دوسرے ہزاروں باشندوںکو بھی قیدی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر شاہین باغ کی خواتین کو آزادی سے جینے کا حق ہے تو ملک کے ان شہریوں نے ایسا کون سا قصور کیا ہے کہ ان کی آزادی کے حق یا پھر ان کی سہولتوں پر پابندی لگادی جائے۔ نوئیڈا اور دہلی کو جوڑنے والی سڑک پر مظاہرین اس طرح سے دھرنے پر بیٹھے ہیں کہ مقامی لوگوں کے لےے آمدورفت میں مشکل پیش آرہی ہے۔ امتحان کے موسم میں لوگ اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پارہے ہیں تو دوسری جانب مقامی لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے۔ راستہ بند ہوجانے سے آدھے گھنٹہ کی دوری تین سے چار گھنٹوں میں طے ہورہی ہے، جس سے ملازمت پیشہ افراد کو بھی اپنے دفتروں تک پہنچنے میں دقتیں پیش آرہی ہیں۔ مظاہرہ کے مقام کے ایک طرف قطار سے فیکٹری آو¿ٹ لیٹس ہیں جو 15دسمبر سے بند پڑے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق ان کا نقصان کروڑوں روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔
لاقانونیت کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف ہائی کورٹ کی ہدایت پر دہلی پولیس مظاہرین سے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کررہی ہے تو دوسری طرف مظاہرین وزیراعظم کے دھرنے کے مقام پر آنے یا پھر سی اے اے ختم کرنے کے مطالبہ پر بضد ہیں۔ وہ تو غنیمت ہے کہ مقامی افراد اور پولیس کی منتوں کے بعد مظاہرین اسکول بس اور ایمبولینس کو راستہ دینے کے لےے تیار ہوئے ہیں۔ لیکن روزانہ اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لےے بھاگ دوڑ کررہے لوگوں کے مسائل جوں کے توں ہیں جن کا حل نکلتا نظر نہیں آرہا ہے۔ حالات کے پیش نظر گزشتہ جمعہ کو پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے کچھ مظاہرین کو حراست میں لے لیا اور لنگر چلا رہے گروہ کو دھرنے کے مقام سے ہٹادیا۔ لیکن اس سے بھی مسئلہ حل ہوتا نہیں نظر آرہا ہے۔
فکر کی بات یہ بھی ہے کہ دہلی میں دو ہفتہ بعد اسمبلی الیکشن ہے اور شہر کا ایک بڑا حصہ بھیڑتنتر کے حوالہ ہے۔ سیاسی نفع نقصان کی تلاش نے اس افراتفری کو الیکشن کا ایشو بھی بنادیا ہے۔ دہلی میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی کھلے عام مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کررہی ہے تو کانگریس اور بایاں محاذ کے کئی لیڈر بھی دھرنے کے مقام کے چکر لگاچکے ہیں۔ دوسری جانب مظاہرہ کے سبب لوگوںکو ہورہی پریشانی کو ایشو بناکر بی جے پی اپنے مخالفین سے سوال پوچھ رہی ہے۔ نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دہلی کے انتخابی موسم میں مظاہرہ پر سوالات کی بوچھار کے درمیان پاکستان کی بھی انٹری ہوگئی ہے۔تو کیا انتظار اس بات کا ہونا چاہےے کہ الیکشن میں کس کا تیر نشانہ پر لگتا ہے؟ بالکل نہیں۔ فکر کا موضوع یہ ہونا چاہےے کہ مخالفت کی آگ میں جگہ جگہ شاہین باغ کھڑے کرنے کی ضدکے پیچھے کون سی ذہنیت کام کررہی ہے۔ شاہین باغ کی طرز پر ملک کی تقریباً 9ریاستوں مہاراشٹر، بہار، مدھیہ پردیش، اترپردیش، پنجاب، راجستھان، گجرات، مغربی بنگال اور جھارکھنڈ میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ جھارکھنڈ کے لوہردگا میں تو سی اے اے کے حامیوں کا ریلی نکالنے کا حق بھی اس کے مخالفین کو گوارا نہیں ہوا۔ سی اے اے حامیوں پر تشدد کے بعد وہاں دفعہ 144لگانی پڑی۔
جمہوریت اگر مخالفت کا موقع فراہم کرتی ہے تو مخالفت کی ’مخالفت‘ میں کھڑے ہونے کا حق بھی دیتی ہے۔ لیکن اظہار رائے کے لےے مشتعل ہونے کی اجازت کبھی نہیں دیتی، تشدد کی قیمت پر تو بالکل نہیں۔ اس لےے سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں ایسی لاقانونیت کی کھل کر حمایت کررہی ہےں، باری باری سے اپنی موجودگی درج کروا کر مظاہرین کا جوش ’ہائی‘ رکھ رہی ہیں، وہ جانے انجانے کہیں جمہوریت کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کا حصہ تو نہیں بن رہی ہیں؟ بتایا جارہا ہے کہ پورے واقعہ میں اپوزیشن اس وجہ سے بھی بالخصوص نشانہ پر ہے کیوں کہ موجودہ حکومت کی مقبولیت کو باندھنے کی اس کی کوششیں اب تک خاطرخواہ نتائج نہیں دے پائی ہیں۔ اس لےے الزام لگ رہے ہیں کہ اپنی سیاست چمکانے کے لےے اپوزیشن طلبا کے بعد اب خواتین کو مہرا بنارہا ہے کیوں کہ شاہین باغ کا مورچہ خواتین کے ہاتھ میں ہی ہے۔ بیشک یہ الزام سیاسی ہوسکتا ہے، لیکن اپوزیشن کو اس بات کا جواب تو دینا ہی ہوگا کہ اس پر ایسے عدم اعتماد کی نوبت آخر آئی کیوں؟ ویسے بھی راتوں رات نظام میں اصلاح کا اس کا مطالبہ منطقی بھی نہیں نظر آتا۔ ملک بھر کے ’شاہین باغ‘ جس مطالبہ کو لے کر بضد ہیں، اس پر تو ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی حکومت کے جواب کا انتظار کرنے کے لےے تیار ہے۔ سی اے اے کے خلاف آئیں عرضیوں پر سپریم کورٹ نے کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ دیتے ہوئے حکومت کو جواب داخل کرنے کے لےے چار ہفتہ کی مہلت دے کر مخالفین کو بھی اختلاف رائے میں فی الحال صبر کرنے کا واضح طور پر پیغام دیا ہے۔ان پر ہے کہ سپریم کورٹ کے اشارہ کو کتنے اچھے سے سمجھتے ہیں۔
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS