دور حاضر میں بہت سے ایسے امراض ہیںکہ مریض انھیں ہاضمے کی خرابی جان کر نظر انداز کردیتے ہیں،تاہم رفتہ رفتہ تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھر پتہ چلتا ہے کہ مرض ہاضمے کا نہیں تھا بلکہ جگر کا تھا۔امراضِ جگرپر معلومات سے قبل اسکے مقام و افعال پر نگاہ ڈالنا مناسب ہے۔ جگر جسمِ انسانی کا سب سے بڑا عضواور غدہ ہے، دائیں پسلیوں کی نچلی طرف واقع ہے،عموماً وزن تین پونڈ ہوتا ہے اور رنگ سرخی مائل نسواری۔ یہ پانچ سو سے زیادہ اہم افعال کا مرکز ہے۔ اس کا کچھ حصہ بائیں جانب بھی موجود ہے۔ یہ استحالہ کاخاص مرکز ہے یعنی غذا، دوا الغرضیکہ جو کچھ بھی انسان کھاتا پیتا ہے، جگر اپنی طبعی حرارت سے اسے پکاتا اور منظم کرتا ہے۔جس طرح شریان دل سے اگتی ہیں ، اسی طرح وریدیں جگر سے ا±گتی ہیں۔ یہیں سے خون دل کے دائیں اذن(ایٹ ریّم)میں پہنچتا ہے۔ اسی اعضائے ہضم کا حاکم بھی کہاجاسکتا ہے۔ اس کے ذمہ اخلاط کی افزائش بھی ہے۔ جب معدے سے باب الکبد کے ذریعے غذا جگر تک پہنچتی ہے تو جگر اسے چھانتا ہے۔ غذا کے کسی جزو کو ایسی حرارت مل جاتی ہے کہ وہ جل جاتا ہے، اسے ’سودائ‘کہتے ہیں۔ یہ اسے تلی تک اپنے عروق کے ذریعے پہنچاتا ہے تو غذاکو ایسی حرارت مل جاتی ہے کہ بخارات جیسی ہئیت ہوجاتی ہے یعنی ’صفراء۔ جگر اسے پتّہ میں جمع کرتا ہے۔ غذا کا کوئی جزوپکنے سے رہ جائے تو اس پر جگر کی حرارت ٹھیک طور پر اثر انداز نہیں ہوتی، اسے خون کے ساتھ بہا دیتا ہے اسے بلغم کہاجاتا ہے یعنی کم پکا ہوا خون۔کبھی غذاءکے کچھ اجزاءکو ٹھیک حرارت پہنچا کر اپنے ہم رنگ کر دیتا ہے جو سر خ رنگ کا خون کہلاتا ہے، اس میں سرخی غالب ہوتی ہے مگرباقی اخلاط بھی پائے جاتے ہیں۔غذا میں بھی کچھ صلاحیت پائی جاتی ہے، مثلاَ ٹھنڈی تاثیر والی اغذیہ کو اس قدر حرارت کی ضرورت ہوتی ہے کہ بعض لوگوںکا جگر وہ مہیا کرنے میں ناکام رہتا ہے، مگر بعض لوگوںکو یہی غذاءمفید ہوتی ہے کہ ان کا جگر وہ حرارت مہیا کر دیتا ہے۔ اکثر لوگوںکا مزاج س±ست ہوتا ہے ان کے ہاضمے اس لیے خراب رہتے ہیںکہ جگر غذاءکو مطلوبہ حرارت مہیا نہیںکرتا۔ ان کے بر عکس چ±ست لوگوں کا ہاضمہ درست ہوتا ہے مگر ان میں جگر کی حرارت بڑھ جانے سے غذاءکا کافی حصّہ بخارات جیسا ہوجاتا ہے یاجل جاتا ہے،دوسرے الفاظ میں صفراءیا سوداءبڑھ جاتا ہے۔ ان لوگوں کو بھی تیزابیت جیسی کیفیات سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر اکثر لوگ ہر حالت میں صرف معدے کی ادویہ ہی استعما ل کرتے رہتے ہیں یوں انھیں صرف وقتی آرام ہی حاصل ہوتا ہے۔علاوہ ازیں جگر کے ذمہ حیاتین (وٹامنز)کو محفوظ کرنا، خامرات کے افراز کو قابو میں رکھنا ، خون کو بہنے اور منجمد کرنے والے اجزاءکو قابو میں رکھنا ، دوا کے زہریلے اثرات کو دور کرنا بھی شامل ہیں نیز جگر ایک خاص ہارمون ”اینجی ٹین سینوجن“بناتا ہے جو بلڈپریشر بڑھاتا ہے،خون کی عروق کو پتلا کرتا ہے۔ جسم بھر میں جو حرارت پائی جاتی ہے وہ جگر کے ہی مرہونِ منت ہے۔جگر کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض کی طرف دھیان دیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے جگر پیدائشی طور پر کمزور (کم حرارت والے)ہوتے ہیں، ان لوگوں کی جلد نرم، سفیدی مائل ہوتی ہے،یہ لوگ س±ست ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو قبض اور ریح کی شکایت زیادہ رہتی ہے، کیونکہ حرارت کی کمی کے سبب ان کی غذاءسے بلغم کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی یہ کیفیت پیدائشی نہیں بلکہ بعض وجوہات سے ہوتی ہے مثلاََ زیادہ تیل والی غذاءکا استعمال، زیادہ پریشانی کے سبب بھی جگر کی طبعی حرارت کم ہوجاتی ہے، ان کا پیٹ بڑھا ہوتا ہے۔ اکثر ذیابیطس کے مریضوںکا جگر کمزور ہوجاتا ہے۔بعض لوگوں میں پیدائشی طور پر یا بعض دیگر وجوہات کی بنا پرجگر باافراط حرارت پیداکر دیتا ہے، ان لوگوں کے جسم دبلے ہوتے ہیں اورانھیں تیزابیت معدہ، بول وبراز میں پیلاہٹ اور پیاس کی شدت جیسے مسائل کا سامنا ہوتاہے۔ نیز پیاس کی شدت برق پاشیدوں (الیکٹرولائیٹ)کے غیر منظم ہونے سے بھی ہوتی ہے۔ جن لوگوںکے جگر زیادہ گرم ہوتے ہیں،انہیں جنون کی حد تک غصہ آجاتا ہے اوردیر تک رہتا ہے۔
جگر کو صحت مند کیسے رکھیں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS