پروفیسرعتیق احمد فاروقی
ہم سب کو اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے ملک کی بہادر افواج نے پہلگام میں پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دیا۔ اس کامیابی پر صرف مسلح افواج ہی نہیں، بلکہ حکومت، حزبِ اختلاف اور متحد عوام سبھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ فوج نے لشکرطیبہ اور جیش محمد کے 9 دہشت گرد مراکز کو، جیسا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے، مکمل طور پر تباہ کردیا۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اس نوعیت کے مزید اڈے بھی موجود ہیں، جن پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری افواج اس لیے بھی قابل ستائش ہیں کہ انہوں نے اپنے مشن کو انتہائی باریکی سے منصوبہ بند انداز میں مکمل کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانے ہی نشانہ بنیں، فوجی تنصیبات اور رہائشی علاقے زد میں نہ آئیں۔
پاکستان نے جوابی کارروائی کے طور پر ہندوستانی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے تقریباً 36 مقامات پر 304ڈرونز سے حملے کی کوشش کی، لیکن ہر جگہ ناکامی اس کا مقدر بنی۔ ہندوستانی سلامتی نظام نے ان ڈرونز کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردیا۔ گزشتہ چند دنوں کی جنگی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دفاعی تکنیک میں ہندوستان پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ ہمارا ملک جنگ کا خواہاں نہیں ہے، لیکن اگر پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور سرحد پر فائرنگ جاری رکھی تو ہم بھی اس کا مؤثر جواب دینے سے گریز نہیں کریں گے۔ مکمل جنگ کی صورت میں نہ تو پاکستان کو فائدہ ہوگا اور نہ ہی یہ ہندوستان کے مفاد میں ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہی بلکہ وہ مزید پیچیدگیاں پیدا کرتی ہے۔ پہلگام میں دہشت گرد حملے میں ہمارے 26شہری جاں بحق ہوئے اور سرحدی علاقوں میں پاکستانی گولہ باری سے مزید 15-20شہری مارے گئے۔
اگرچہ ہندوستان نے وقتی طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرکے پاکستان کو سبق دینے کی کوشش کی ہے، لیکن صرف پانی روک دینے سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ اس کے لیے دریاؤں پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ضروری ہے جو وقت طلب ہے۔ اسی لیے فوجی کارروائی ناگزیر تھی تاکہ پاکستان آئندہ ایسی حرکتوں سے باز رہے۔ ہندوستان نے اپنی اس فوجی کارروائی کو ’’آپریشن سندور‘‘ کا نام دیا، جس کی قیادت کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومکا سنگھ نے کی۔ اس آپریشن کے ذریعے پاکستان، بالخصوص اس کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کو واضح پیغام دیا گیا کہ ہندوستان کے تمام طبقات متحد ہیں اور یہاں کے مسلمان بھی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان کی چالوں سے نالاں ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا گیا کہ اگر دہشت گردی نے پر پھیلائے تو اسے کاٹنے میں ہندوستان دیر نہیں کرے گا۔ 2016 کے اڑی اور 2019 کے پلوامہ حملوں کے بعد بھی ہندوستان نے جوابی کارروائی سے یہی پیغام دیا تھا کہ اب وہ نرم ریاست نہیں رہا جو خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہے گا۔
اس مرتبہ بھی ہندوستان نے پاکستان کو واضح چیلنج دیا ہے کہ وہ اپنی بگڑتی معیشت اور داخلی مسائل کے پیش نظر اپنی حدود میں رہے، وگرنہ اسے سبق سکھانے میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔ ہندوستانی افواج نے ابتدائی پانچ دنوں تک صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے، کسی فوجی یا شہری تنصیب کو نشانہ نہیں بنایا، جبکہ پاکستان مسلسل شہری علاقوں کو ہدف بنا رہا تھا۔ جب پاکستان نے ہندوستان کے مختلف شہروں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے تو جواباً اسکندو، جیکب آباد، سربودھا اور بھولاری جیسے فضائی اڈوں اور دفاعی نظام کو نشانہ بناکر پاکستان کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔
بالآخر 10مئی کی شام پانچ بجے امریکی ثالثی کے نتیجے میں اور ’’آپریشن سندور‘‘ سے پسپا ہونے کے بعد، پاکستانی فوج کی پیش قدمی پر دونوں ملک فوجی کارروائی روکنے پر متفق ہوئے اور دونوں طرف سے ہتھیار خاموش ہوگئے۔ ہندوستان نے واضح کیا ہے کہ یہ جنگ بندی صرف فوجی کارروائی تک محدود ہے۔ سندھ طاس معاہدے پر عائد روک، ہائی کمیشن اسٹاف میں کمی، سرحد بندی، شہری آمد و رفت، تجارتی تعلقات اور فضائی حدود پر پابندیاں بدستور قائم رہیں گی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یہ معاہدہ کسی پیشگی یا بعد کی شرط کے بغیر طے پایا ہے۔ آج دونوں طرف کے ڈی جی ایم او مختلف امور پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔
یہ بھی خوش آئند پہلو ہے کہ جنگ کے دوران حزبِ اختلاف اور عوام نے مذہب و ملت سے بالاتر ہوکر حکومت کی غیرمشروط حمایت کی۔ اب جبکہ جنگ ختم ہوچکی ہے تو وزیراعظم نریندر مودی کو کچھ اہم سوالات کے جواب دینے ہوں گے، بالخصوص حزبِ اختلاف کو۔ آج تک مودی جی اس سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کی اطلاع کے باوجود پلوامہ میں فوجیوں کے لیے ایئرکرافٹ فراہم کیوں نہیں کیے گئے جبکہ دہشت گردی کا خطرہ واضح تھا؟ پہلگام میں سیاحوں کی حفاظت کے لیے سیکورٹی فورسز تعینات کیوں نہیں کی گئیں، حالانکہ چند روز قبل ہی اسی خطرے کے پیش نظر وزیراعظم کا دورہ منسوخ کیا گیا تھا؟
پہلگام واقعہ کے بعد ملک میں بعض ہندو انتہا پسند تنظیموں نے مسلمانوں اور کشمیریوں پر حملے شروع کیے، لیکن وزیراعظم نے قوم سے خطاب کر کے ان واقعات کو روکنے کی اپیل کیوں نہیں کی؟ حکومت نے ان عناصر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جنہوں نے فوجی افسر کی بیوہ ہمانشو نروال، بھوجپوری گلوکارہ نیہا سنگھ راٹھور اور لکھنؤ یونیورسٹی کی پروفیسر نو درگا کاکوٹی کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا؟ جب پہلگام دہشت گردی کی اطلاع ملی تو وزیراعظم سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے ہندوستان تو لوٹ آئے، مگر پہلگام کے بجائے بہار میں انتخابی مہم میں کیوں مصروف ہوئے؟ شہدا کے گھر تعزیت کے لیے کیوں نہیں گئے؟ اور اس واقعہ سے متعلق ہونے والی آل پارٹی میٹنگ میں شرکت سے کیوں گریز کیا؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کا فیصلہ اگر شملہ معاہدے کی روح کے مطابق ہونا تھا تو پھر تیسرے فریق یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کی ثالثی کیوں تسلیم کی گئی؟ کیا معاہدے سے قبل فوجی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا تھا؟ کیا ہم نے امریکہ کی بالا دستی تسلیم کرلی ہے کہ وہ ہمارے داخلی و خارجی معاملات میں دخل دے گا؟ دہشت گردوں کو عبرت ناک سزا دینے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اب وہ کہاں سے اور کون لائے گا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔ ہم عالمی برادری کو اپنا مؤقف سمجھانے میں ناکام رہے۔ امریکہ نے پاکستان کو اس کے تمام جرائم کے باوجود آئی ایم ایف سے 2.3 بلین ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج دلوا دیا، ہماری مخالفت کے باوجود۔
بلاشبہ ہندوستان کی جوابی کارروائی ضروری اور بروقت تھی، لیکن دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اور پائیدار امن تبھی ممکن ہے جب فوجی اور سفارتی رابطوں کو مستقل، ادارہ جاتی شکل دی جائے۔