جب ذرائع ابلاغ کا قبلہ مفاد پرستی، سنسنی خیزی اور تشددآمیز قومی جنون کے محور پر گھومنے لگے تو وہ شعور کے بجائے جذبات بھڑکاتے ہیں،تحقیق کے بجائے پروپیگنڈہ پھیلاتے ہیں اور حقائق کے بجائے افواہوں کو زبان و بیان کا جامہ پہناتے ہیں۔ آج کا ہندوستانی میڈیا اسی فکری انحطاط کا شکار ہوچکا ہے جہاں حب الوطنی کی آڑ میں جنگی جنون کی آبیاری ہورہی ہے اور ’’ریٹنگ‘‘ کی دوڑ میں سچائی کا گلا گھونٹ دیا جارہا ہے۔ملک کا میڈیا ہندوستان اور پاکستان کے مابین جاری کشیدگی جیسے حساس مسئلے کو منافع بخش تماشا بناکرکمرشیل نیشنلزم کی ایسی بدترین مثال پیش کررہا ہے جس کا انجام صرف تباہی، بداعتمادی اور انسانی جانوں کے نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔
سرحد پار دشمنی اور نفرت کا ماحول پیدا کرنا بظاہر قوم پرستی سہی،مگر درحقیقت یہ قومی مفاد کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ آج جب عالمی سطح پر سفارتی بصیرت،تدبر اور پرامن بقا کی روشنی میں تنازعات حل کرنے کی بات کی جارہی ہے،ہمارامیڈیا گویا 1965 کی جنگ کی بازگشت کو پھر سے زندہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ملک کا میڈیا آج کسی صحافتی ادارے کے بجائے میدان جنگ میں کھڑے ایک اشتعال انگیز سپاہی کا کردار ادا کررہا ہے جو امن کے سفیروں کو ’’غدار‘‘ اور جنگ کے سوداگران خبر کو ’’محب وطن‘‘ کا تمغہ پہنا رہا ہے۔
6 مئی کی رات کے بعد پاکستان کے خلاف ہندوستان کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کے بعدمیڈیا نے جس طرح بے لگام ہو کر معلومات کی ترسیل کی ہے،اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے عوام میں دشمنی اور نفرت کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ہندوستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
یہ نام نہاد میڈیا چینلزاب بھی مسلسل غلط معلومات پر مبنی خبریں پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہو رہی ہیں اور ان میں اسلام آباد پر فوج کشی،کراچی میں ہندوستانی بحریہ کے حملے اور پاکستان کے ایف 16 طیاروں کے گرائے جانے جیسے دعوے شامل ہیں۔ ان جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات کا مقصد صرف عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو بڑھانا ہے۔ سوشل میڈیا اور ہیک شدہ اکاؤنٹس پر بہت ساری افواہیں گردش کر رہی ہیں اور بغیر کسی تصدیق کے ان ہی معلومات کو بعض میڈیا ادارے اپنی رپورٹس کا حصہ بنا رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ کا راستہ تباہی،انسانی جانوں کے ضیاع اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بداعتمادی کا باعث بنتا ہے۔ ہند-پاک کی جاریہ کشیدگی کے دوران جنگی جنون کو بڑھاوا دینے میںذرائع ابلاغ نے جو کردار ادا کیا ہے،اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا، سوائے اس کے کہ اس سے عوام کے درمیان نفرت کی لہر گہری ہو رہی ہے،جو کہ کسی بھی قوم کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
ایسے میں جب میڈیا اشتعال انگیزی کو ہوا دے رہا ہے، حکومت کی سیاسی قیادت کا ردعمل اور سنجیدگی خود ایک اہم سوال بن جاتی ہے۔اس تمام پس منظر میں ایک اور اہم پہلو آل پارٹی میٹنگ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کی غیر موجودگی کا ہے۔ جب 8 مئی کو وزیراعظم مودی کی قیادت میں آل پارٹی میٹنگ بلائی گئی تھی تاکہ موجودہ صورتحال پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جا سکے تو افسوس کی بات یہ تھی کہ وزیراعظم اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ غیر موجودگی ایک سنجیدہ پیغام دے رہی تھی کہ وزیراعظم نہ تو پارلیمنٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ملکی سیاست اور حکومت کے دیگر اہم ستونوں کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم اپنی ذاتی سیاست اور تشہیر میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں،بجائے اس کے کہ وہ قومی مفاد کیلئے تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی حکمت عملی تیار کرتے۔
اس اجلاس میں موجود تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے اقدامات کی حمایت کی اور جنگی کارروائیوں کے حوالے سے حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا۔ تاہم،وزیراعظم کی غیر موجودگی نے ایک سوالیہ نشان کھڑا کیا کہ کیا وہ اس بحران کے دوران قوم کی قیادت کرنے کیلئے تیار ہیں؟ 24 اپریل کو بھی وزیراعظم نے اس وقت اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی جب پہلگام میں حملہ ہوا تھا۔ مودی کی غیر موجودگی کے بعد،اپوزیشن نے اس رویے پر خاموشی اختیار کی،مگر یہ حقیقت ہے کہ اس اجلاس میں وزیراعظم کی عدم شرکت نے انہیں قومی سطح پر ایک غیر ذمہ دار قائد کے طور پر پیش کیا۔
اس کے برعکس،وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ،وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے آل پارٹی اجلاس میں حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کی وضاحت کی اور اس بات کی تصدیق کی کہ ہندوستان اپنے دفاع کیلئے ہر قدم اٹھائے گا۔ تاہم،یہ ضروری تھا کہ حکومت عوام اور سیاسی جماعتوں کو مزید اعتماد میں لیتی،خاص طور پر اس وقت جب پورے ملک میں جنگی صورتحال پیدا ہو چکی تھی۔
اس پس منظر میں،ہندوستانی میڈیا کی بے لگام رپورٹنگ، وزیر اعظم کی غیر موجودگی اور حکومت کی خاموشی،ان تمام عوامل نے اس بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ اس کے باوجود،وقت کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں ممالک امن کی راہ اختیار کریں اور جذباتی فیصلوں کے بجائے حقیقت پر مبنی اقدامات کریں۔ جنگ کا راستہ صرف تباہی،انسانی زندگیوں کے ضیاع اور عالمی سطح پر بدنامی کا سبب بنے گا،جبکہ امن کی جانب قدم بڑھانا ہی حقیقی کامیابی ہوگی۔