طاقت کے باوجود پیشانی پرتشویش کی شکن

0

گیارہ ماہ سے جاری غزہ پر اسرائیلی کارروائی صرف قتل عام و نسلی تطہیر پر مشتمل ہے۔اس مختصر قطعہ اراضی میں اسرائیل کافی سرگرم ہے۔ اس نے جنگ میں پوری ریاستی توانائی جھونک دی ہے۔غزہ میں صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اہل فلسطین کے حوصلے توڑنے کے لیے صہیونی ریاست ظلم وستم کی تمام حدود کو عبور کرچکی ہے۔اس کے باوجود ان حریت پسندوں کے عزم کو توڑنے میں ظالم اب بھی ناکام ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسی جھنجھلاہٹ میں اسرائیل زیادہ ظالم ہورہا ہے اور بے گناہوں ، معصوموں اور نہتے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔
اہل فلسطین کی کوئی باضابطہ فوج نہیں ہے نہ ہی ان کے پاس بحریہ ہے، نہ فضائیہ اور نہ ہی اسرائیل کی طرح جدید ترین اسلحہ اور ترقی یافتہ مواصلاتی نظام مگر پھر بھی اسرائیل کی فلسطینیوں کو بدترین صدمات سے دوچار کرنے کی ضد میں کی گئی فوجی کارروائیوں کو اب تک انسانی حقوق اور جنگی قواعد کی بدترین خلاف ورزی قرار دیا جار ہا ہے۔ اسرائیل کی افواج غزہ میں اتنا جانی ومالی نقصان کرچکی ہیں ۔ چند روز قبل سے اسرائیلی وزیر دفاع غزہ میں جنگ بندی کی باتیں کررہے ہیں اور تمام تر توجہ لبنان کی طرف مرکوز کرنے کی صلاح دے رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی حمایت، مقبولیت اورہمدردی بڑھ رہی ہے کہ تمام اہل دانش سمجھ رہے ہیں کہ اگر اسرائیل کا یہی وحشیانہ وطیرہ برقرار رہا تو اسرائیل کو بین الاقوامی سیاست میں اپنا موجودہ مقام بچا کر رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں اسرائیل کے فوجی ماہرین بشمول دفاعی افواج کے سربراہ نیتن یاہو کی پالیسی کے خلاف کئی مرتبہ آواز اٹھا چکے ہیں۔ نیتن یاہو کے خلاف نہ صرف آواز اٹھی ہے بلکہ ان کی مخالفت کھلے اندازمیں ہوئی ہے اس کے باوجود ان کے رویہ میں تبدیلی کے امکانات تو نہیں ہیں۔نتن یاہو اسرائیلیوں میں ابھی بھی مقبول ہیں اس کے علاوہ لکڈ پارٹی اور دواور سیاسی پارٹیاںریلیجس زائنسٹ پارٹی(Religious Zionist Party) اور اوٹزمہ یہودت پارٹی (Otzma Yehdit Party)نتن یاہو کو شہ دے رہی ہیں اور ان پر اور زیادہ سخت رخ اختیار کرنے کے لیے دبائو ڈال رہی ہیں۔ طاہر ہے کہ یہ سب کچھ نتن یاہو کی منشا اور مرضی سے ہورہا ہے۔ اس بات کا قطعی امکان نہیں کہ نتن یاہو اپنے طور طریقوں میں تبدیلی یا لچک لے آئیں۔
غزہ جنگ نے پوری دنیا کی سیاست کو الگ رخ دے دیا ہے اور کئی عرب ومسلم ملکوں کے مقابلے میں یوروپی ملکوں کا رویہ اسرائیل کے تئیں زیادہ سخت اور حق پسندی پر مبنی ہے۔ اسپین ناروے جیسے ممالک کے انداز اور تیور اس قدر سخت ہیں کہ اسرائیلی اپنے ان پرانے حلیفوں سے بہت سخت ناراض ہوگیا ہے۔
7اکتوبر کی کارروائی میں حماس نے 251افراد کو یرغمال بنالیا تھا جس میں سے 33یرغمالی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ابھی بھی 64یرغمالی غزہ میں ہیں۔ اسرائیل بغیر اس بات کا خیال کیے کہ اس کی اس بے رحمانہ بمباری میں نہ صرف معصوم فلسطینی مارے جارہے ہیں بلکہ اس کے خود کے لوگ بھی مارے جاسکتے ہیں۔ امریکہ کی قیادت اب لگاتار یہ کہہ رہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعہ ان یرغمالیوں کی رہائی کا انتظام کیا جائے ، کیونکہ ان یرغمالیوں میں خود امریکہ اور دیگر کئی ملکوں کے لوگ بھی شامل ہیں جو تفریح کی غرض سے اسرائیل گئے تھے۔
چند روز قبل اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ملنے سے اسرائیل میں سنسنی پھیل گئی تھی اور موجودہ قیادت پر الزامات لگائے جارہے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر حماس سے سمجھوتہ نہ کرکے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی نہیں چاہتاہے۔ امریکہ کی قیادت نے خود اس بابت توجہ دلائی تھی کہ سمجھوتہ کرکے یرغمالیوں کو بھی آزاد کرایا جائے اور غزہ فلسطینیوں کی جان بھی بخش دی جائے جو بلاوجہ میں چارہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ صدارتی الیکشن سے قبل کوئی ایسا سمجھوتہ ہوجائے جو موجودہ حکمراں سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے ورکروں اور ووٹروں کو حوصلہ دے دے۔ کملا ہیرس اور نیتن یاہو کے درمیان امریکہ میں ہونے والی ملاقات میں جو گفتگو ہوئی اس کا لب لباب بھی یہی تھا کہ اس دھماکہ خیز صورت حال کو ختم کیا جائے جس نے پورے مغربی ایشیا کو اپنی زد میں لے لیاہے، جس کا شکار علاقے کے کئی ممالک ہوگئے ہیں۔ اس تعطل سے امریکہ کی معتبربیت اور مفادات کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ کی مقبولیت مغربی ایشیا اور دیگر خطوں میں متاثر ہوئی ہے ۔ بعض مبصرین اس کو عراق اور افغانستان پر ناٹو اور امریکہ کے حملوں کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے جو ڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ جس طرح اسرائیل کو مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی حمایت مل رہی ہے۔ اس سے بطور خاص امریکہ کو فوری اور مستقبل میں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی کے آگے اہل اسرائیل اور وہ ممالک جو مذاکرات اور مصالحت میں شامل ہیں مایوسی ہیں ان میں قطر، اور مصر شامل ہیں۔ دونوں ملک اپنے عوام کی ناراضگی کا خطرہ مول لے کر یرغمالیوں کی رہائی کی کوششیں کررہے ہیں۔
امریکہ کو خطرہ یہ ہے کہ یہ تصادم لبنان کو بھی اپنی زد میں لے لے گا ۔اگر حزب اللہ ، اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو اس کا اثر بہت بھیانک ہوگا۔ چند روز قبل یمن کے حوثی باغیوں کے حملوں کا شدید اثر دیکھاگیا۔ خود اسرائیل حیران ہے کہ اس گروپ نے وسطی اسرائیل میں اس کی آبادی کوکس طرح نشانہ بنالیا۔یہاں تک کہ حوثیوں نے انتہائی ترقی یافتہ اورجدید ترین امریکہ کے اینٹی میزائل سسٹم کو بھی تباہ کردیا ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS