علی گڑھ :اے ایم یو میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف پر امن احتجاج کررہے طلبا اور پولیس کے درمیان ہوئے تشدد کے ایک ہفتہ بعد اب حالات معمول پر آرہے ہیںلیکن جیسے جیسے حالات معمول پر آئے ہیں اور انٹر نیٹ خدمات بحال ہوئی ہیں تو پولیس بربریت کی کچھ ان سنی کہانیاں بھی کہی جارہی ہےں ،اے ایم یو کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج میں زیر علاج بی اے فائنل کے طالب علم ناظم خاں اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے سہم جاتے ہیں۔ان کا کہناہے کہ جب ہم پرامن احتجاج کررہے تھے اچانک پولس کی یلغار کو دیکھ کر ہم باب سید سے ملحق گیسٹ ہاﺅس نمبر تین میں چلے گئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا ،پولس نے دروازہ کو توڑنے کی کوشش کی دو گھنٹہ کے بعد مجھ سمیت 11 لوگوںکو گرفتار کر بری طرح سے مارپیٹ کرتے ہوئے تھانہ گاندھی پارک لے گئے وہاں بھی بہت دیر تک لاٹھی ڈنڈوں سے مارا ، جب حالت زیادہ خراب ہونے لگی تو ملکھان سنگھ اسپتال لے آئے،یہاں علاج کے نام پر صرف درد کم کرنے کا انجکشن دیا اور کچھ بھی نہیں کیا جبکہ میرے فریکچر تھا ،یہاں بھی ذہنی اذیت کے ساتھ گالیاں دی گئی اور کہا گیا کہ تم پاکستانی ہو اور ملک دشمن ہو،وہاں پر تعینات پولس والے نے کہا کہ انکا ابھی میڈیکل مت کرو ابھی اور مار لینے دو ، میری حالت مذید خراب ہوگئی ،میری بغل میں میرا دوست تھا اس نے جیسے ہی بتایا کہ اسکا تعلق جموں سے ہے تو اسے پھر مارنا شروع کردیا مجھے پوری رات کچھ نہیں دیا ایک بینڈیج تک نہیں دی۔
دوسرے دن تقریباً 1:30 بجے ڈاکٹر آیا اس نے میری حالت دیکھی تو ڈاکٹر نے کہاکہ ان کو ریفر کرو ان کے فریکچر ہے سرجری ہوگی ،پولس والوںنے ریفر نہیں کرنے دیا اور وہیں عارضی پلاسٹر کردیا اس کے بعد پھر اسپتال سے تھانہ بنا دیوی لیجاکر حوالات میں بند کردیا وہاں پہلے سے 6لڑکے تھے ،میرے ساتھ آشوتوش بھی تھا ،پولس نے اس سے کہا کہ تو بھی ان غداروںکے ساتھ مل کر غداری کررہا ہے۔پولیس نے اس کو بہت مارا تھا وہ بولنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔ہمیں رات ساڑھے 8 بجے تھانہ سے چھوڑا گیا تب سے ہی میڈیکل کالج اسپتال میں علاج جاری ہے۔ غورطلب ہے کہ ناظم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا ہے اور خود ناظم کی حالت دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ کن حالات سے گذرے ہیں۔
میڈیکل کالج میں زیر علاج طالب علم ناظم خان نے سنائی آپ بیتی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS