عبدالماجد نظامی
ہندوستان میں گزشتہ دس برسوں سے جس قسم کی سیاست کا بول بالا ہے، اس کے بنیادی عناصر میں مسلم دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کی ہرزہ سرائی کو بڑھاوا دینا شامل ہے۔ تقسیم، نفرت اور عداوت کی سیاست کو ترقی دے کر آج اس مقام تک پہنچا دیا گیا ہے کہ بے وجہ مسلمانوں کے گھر توڑ دیے جائیں، ان کی مسجدیں زمیں بوس کرکے جشن کا ماحول تیار کیا جائے، یہاں تک کہ مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کا جیل سے باہر آنے کے بعد ہیرو جیسا استقبال کرکے ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جائیں، یہ سب کچھ معمولی واقعات بن کر رہ گئے ہیں۔ پورے ملک میں مسلم مخالف مزاج پیدا کرنا اتنا آسان کبھی نہیں تھا لیکن چونکہ سنگھ کی شاکھاؤں میں سکھائے جانے والے نفرت انگیز اور زہر آلود افکار و نظریات کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے مضبوط سیاسی اقتدار حاصل ہوگیا تو یہ سب کچھ آسان بنا دیا گیا۔ ملک کی بڑی تعداد نے اس کو قبول بھی کرلیا کیونکہ فرقہ واریت اور باہمی نفرت کے الفاظ خود وزیراعظم کے منہ سے نکلے جن کو بڑی اطاعت کے ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا نے گھر گھر پہنچا دیا۔ اس ملک کے وزیراعظم نے ہی سب سے پہلے یہاں کے عوام کو شمشان اور قبرستان کے خانوں میں بانٹا۔ اپنی دستوری ذمہ داریوں اور سیاسی اخلاقیات سے پہلوتہی کرتے ہوئے ملک کے وزیراعظم نے ہی اپنی تقریروں کے ذریعہ لوگوں کو بتایا کہ وہ کپڑوں سے پہچان سکتے ہیں کہ کون کس دھرم کا ماننے والا ہے اور پھر ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کو روا رکھنے کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس ملک کے لوگ انتظار ہی کرتے رہے کہ وزیراعظم یہاں کے انسانوں کو آپس میں جوڑنے کا کام کریں گے اور انسانوں میں موجود درندگی کے عناصر کو اجاگر نہیں کریں گے لیکن اس کا وقت کبھی نہیں آیا۔ معاملہ بد سے بدتر ہوتا رہا اور حالیہ عام انتخابات میں وزیراعظم نے ساری حدیں ہی پار کردیں۔ ان کی تقریریں سن کر کسی بھی مہذب انسان کو یہ یقین نہیں آتا تھا کہ بھلا کوئی شخص اتنے اہم اور اعلیٰ ترین عہدہ تک پہنچنے کے باوجود ایسی سطحی باتیں کیسے کر سکتا ہے؟ سبھی حیران تھے کہ مٹن، مجرا اور مسلم سے اوپر اٹھ کر ایک اعلیٰ دماغ قائد کا کردار نبھانے کی کوشش آخر وزیراعظم کیوں نہیں کرتے؟ اتنی بلندی پر کھڑے عوامی لیڈر کی زبان سے جب مسلم مخالف بیانات مسلسل نکلتے رہے اور اخلاق و پیشہ ورانہ شفافیت سے عاری میڈیا نے جب اس میں مزید نئے نکتے اور زاویے پیدا کرکے عام باشندگان ملک کے دل و دماغ کو نفرت سے پوری طرح بھر دیا تو اس کے سنگین نتائج ہندوستان کی سڑکوں پر نظر آنے لگے۔ ایک ہندوستانی اپنے دوسرے ہندوستانی بھائیوں کو مذہب کی بنیاد پر بے رحم موت عطا کرنے میں سکون محسوس کرنے لگا۔ اس کا شکار بنیادی طور پر مسلمان ہوا جو کبھی گائے کے نام پر تو کبھی غذائی انتخاب اور طرز لباس و معاش کے نام پر اذیتوں کا شکار ہوا۔ جن گھروں کو بنانے میں لوگوں کی عمر بیت جاتی ہے، ان کو بلڈوزر کی چوٹ سے چشم زدن میں زمیں بوس کر دیا گیا۔ پولیس اور انتظامیہ نے جب دیکھا کہ سیاسی اقتدار اعلیٰ کے حامل لیڈر کی جانب سے ہی یہ اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو عزت و وقار اور چین و سکون کی زندگی سے محروم کر دیا جائے تو انہوں نے اپنی بے شرمی کی کوئی انتہا نہیں رہنے دی۔ پولیس نے بھی بھیڑ کے ساتھ مل کر معصوم مسلمان نوجوانوں کو اپنی گولی اور گالی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تاکہ انہیں بھی اپنے سیاسی آقاؤں کی نظر میں آنے کا موقع مل سکے اور نوازشوں کی برسات کے کچھ چھینٹوں سے فیضیاب ہونے کا زرّیں موقع ہاتھ آجائے۔ 2020 کے دہلی فسادات میں اس کی تصویر صاف نظر آتی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی اسی ہندوتو نواز پالیسی کا عکس ہمیں مظفر نگر کے علاقہ میں چھوٹی موٹی تجارت کرنے والے مسلمانوں کے خلاف جاری فرمان میں بھی نظر آتا ہے۔ پولیس انتظامیہ نے یہ فرمان جاری کیا ہے کہ جن راستوں سے کانوڑیوں کا قافلہ گزرے گا، ان پر جن مسلمانوں کی دکانیں اور ٹھیلے موجود ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان پر اپنا نام لکھیں۔ اگرچہ پولیس نے بہانہ یہ بنایا ہے کہ چونکہ بہت سے مسلمان بھی منافع کی غرض سے اپنی دکانوں یا ٹھیلوں پر دیوی دیوتاؤں کی تصویریں لگالیتے ہیں جن سے کانوڑیوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، اس لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سنگھ کی مختلف تنظیموں نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کا جو اعلان کیا ہے، یہ اسی کا شرمناک پہلو ہے۔ یہ بات نہایت خطرناک ہے کہ پولیس کا عملہ کھلے عام ہندوتو کے ایجنڈہ کو نافذ کر رہا ہے۔ اس فرمان میں چھپے چھوا چھوت کے عقیدہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہت ممکن ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں کو بھی اس اقتصادی بائیکاٹ میں شامل کیا جانا مقصود ہو۔ حالانکہ پولیس انتظامیہ سے مطلوب یہ تھا کہ اگر سماج دشمن عناصر ایسا اعلان کرتے تو وہ ایسی حرکتوں کی روک تھام کے لیے اپنے دستوری اثر و رسوخ کا استعمال کرتے کیونکہ ہمارے ملک کا آئین ذات پات یا دھرم و مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ کی اجازت نہیں دیتا۔ پولیس کی جانب سے ایسے کسی بھی فرمان کے جاری کرنے کا مقصد واضح ہے کہ ان کے پیش نظر آئین پر مبنی ایک متحد ہندوستان قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے وہ نفرت و تقسیم کے نظریہ کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں اور عہد قدیم کے اس فرسودہ غیر انسانی اور غیر جمہوری نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں جس کی بہت بڑی قیمت اس ملک نے اور دنیا کے کئی ممالک نے ماضی میں چکائی ہے۔ ہٹلر کے عہد میں جرمنی کے فاشزم پر مبنی نظریہ نے یہودیوں کے ساتھ جو بہیمانہ برتاؤ کیا تھا اور جس کی قیمت آج تک جرمنی کو ادا کرنی پڑ رہی ہے، ہمارے ملک کے الگ الگ حصوں میں بھی اسی نظریہ کو دھرم کی آڑ میں نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عدالت کو چاہیے کہ فوراً ہی اس پر توجہ دے اور پولیس کی اس غیر آئینی حرکت پر لگام لگائے جس کی وجہ سے ملک میں انتشار و بدامنی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ملک کی سالمیت کا تقاضہ یہی ہے کہ ایسے مذموم فرمانوں کو وقت رہتے ہی ختم کر دیا جائے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)