پنکج چترویدی
بڑی منتوں کے بعد جب ملک کے بڑے حصے میں بارش کی بوندیں پڑیں تو آب حیات جیسے پانی کی سب سے پہلی مار ان سڑکوں پر پڑی جنہیں جدید ترقی کا معیار سمجھا جا رہا تھا۔ ملک کی ہر ریاست میں اس دوران سڑکوں سے گڑھوں کو پوری طرح ختم کرنے کے لیے مہم چلائی جاتی ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن ایک بارش کے بعد ہی سڑک پر پرانے گڑھے نئی شکل میں نظر آتے ہیں۔ راجدھانی دہلی ہو یا دور دراز کے گاؤں، عام آدمی ہمیشہ اس بات سے ناخوش نظر آتا ہے کہ اس کے یہاں کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، تنگ ہیں یا بالکل کام کی ہی نہیں ہیں۔ لیکن معاشرہ کبھی یہ نہیں سمجھتا کہ سڑکوں کی بری حالت کرنے میں اس کا کردار بھی کم نہیں ہے۔ اب پورے ملک میں 22 لاکھ کروڑ خرچ کر کے سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ سفید انقلاب اور سبز انقلاب کے بعد اب ملک سڑک انقلاب کی جانب گامزن ہے۔ اتنی بڑی رقم خرچ کرکے تیار کی گئی سڑکوں کی دیکھ بھال بھی مہنگی ہو گی۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایک بھی سڑک ایسی نہیں ہے، جس پر قانون کی حکمرانی ہو۔ گوپی ناتھ منڈے، راجیش پائلٹ، صاحب سنگھ ورما جیسے قدآور لیڈروں کو ہم سڑک کی معمولی لاپروائیوں کی وجہ سے کھو چکے ہیں۔ حد سے زیادہ رفتار سے گاڑی چلانا، گنجائش سے زیادہ وزن لادنا، سست رفتاری کے لیے بند سڑک کا خیال نہ رکھنا، لین میں گاڑی نہ چلانا، سڑک کے دونوں اطراف تجاوزات اور دکانیں، ایسے کئی مسائل ہیں جن پرمناسب قوانین کے تئیں عدم توجہی ہے اور یہی سڑک کی خستہ حالی کی وجہ بھی ہے۔
سڑکوں پر اتنا خرچ ہو رہا ہے، اس کے باوجود سڑکوں کو محفوظ رکھنا مشکل ہے۔ دہلی سے میرٹھ تک1600 کروڑ کے ایکسپریس وے کا چوتھے سال پہلی ہی بارش میں جگہ جگہ دھنس جانا اور دہلی میٹروپولیٹن کے اس کے حصے میں پانی جمع ہونا اس بات کی مثال ہے کہ سڑکوں کی تعمیر میں ناتجربہ کاروں اور طاقتور لیڈروں کی موجودگی ایک کمزور سڑک کی بنیاد رکھتی ہے۔ ایودھیا ہو یا گروگرام، ہر جگہ نئی تعمیر شدہ سڑکوں کے دھنسنے پر حکومت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ ملک بھر میں سڑکیں بناتے وقت ان کی نگرانی کا کام کبھی کوئی تکنیکی ماہر نہیں کرتا ہے۔ روڈ مولڈنگ مشین کا ڈرائیور اور ایک کلرک سڑک بنا ڈالتے ہیں۔ اگر چند معاملوں کو چھوڑ دیا جائے تو سڑک بناتے وقت ڈالے جانے والے بولڈر،روڑی اور بجری کی صحیح مقدار کبھی نہیں ڈالی جاتی ہے۔ شہروں میں تو سڑک کے کناروں سے مٹی اٹھا کر ہی پتھروں کو دبا دیا جاتا ہے۔ کچی سڑکوں پر ویکیوم سکر سے تمام مٹی کو صاف کرنے کے بعد ہی تارکول ڈالا جانا چاہیے، کیونکہ مٹی پر گرم تارکول ویسے تو چپک جاتا ہے لیکن جب وزنی گاڑی چلتی ہے تو وہاں سے ہٹ جاتا ہے۔ اس قسم کے ویکیوم سکر سے کچی سڑک کی صفائی کہیں بھی نہیں ہوتی ہے۔ حالانکہ اس کے بل فائلوں میں ضرور ہوتے ہیں۔
اسی طرح سڑک بنانے سے پہلے پکی سڑک کے دونوں طرف کچے میں مضبوط کھرنجا تارکول یا سیمنٹ کو پھیلنے سے روکتا ہے۔ اس میںروڑی مل کر کھرنجے کے دباؤ میں سانچے کی طرح ڈھل جاتی ہے۔ عام طور پر ایسے کھرنجے صرف کاغذات تک ہی محدود ہوتے ہیں، بعض جگہ اینٹیں بچھائی بھی جاتی ہیں تو انہیں روڑی یا سیمنٹ سے جوڑنے کی جگہ محض وہاں سے کھودی گئی مٹی پر ہی ٹکا دیا جاتا ہے۔ اس سے تھوڑا پانی پڑنے پر ہی اینٹیں ڈھیلی ہو کر اکھڑ جاتی ہیں۔ یہاں سے تارکول اور روڑی کے پھیلنے اور پھٹنے کی شروعات ہوتی ہے۔
سڑک کی ڈھلائی ٹھیک نہ ہونا بھی سڑک کٹنے کی بڑی وجہ ہے۔ سڑک درمیان سے اٹھی ہوئی یا کناروں سے دبی ہونی چاہیے تاکہ اس پر پانی پڑتے ہی کناروں کی جانب بہہ جائے۔ لیکن شہری سڑکوں کا تو کوئی لیبل ہی نہیں ہوتا ہے۔ بارش کا پانی یہاں وہاں بے ترتیب طور پر جمع ہوتا ہے اور پانی سڑک کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ نالیوں سے بہہ کر آیا پانی سڑک کے کنارو ںکو کاٹتا رہتا ہے۔ ایک بار سڑک کٹی تو وہاں سے گِٹّی، بولڈر کا نکلنا رکتا نہیں ہے۔
سڑکوں کی خستہ حالت میں ہمارے ملک کے تہواروں کا کردار بھی کم قصوروار نہیں ہے۔ میٹروپولیٹن شہروں سے لے کر دور دراز کے گاوؤں تک، گھر میں شادی ہو یا سیاسی جلسہ، سڑک کے درمیان شامیانہ لگانے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور اس کے لیے سڑکوں پر چار سے چھ انچ گول اور ایک فٹ گہرائی کے کئی گڑھے بنائے جاتے ہیں۔ بعد میں انہیں بند کرنا کسی کو یاد نہیں رہتا۔ ان سوراخوں میں پانی بھرتا ہے اور سڑک گہری تک کٹتی چلی جاتی ہے۔
نل، ٹیلی فون، سیور، پائپ گیس وغیرہ جیسے کاموں کے لیے سرکاری محکمے بھی سڑکوں کو چیرنے میں کوئی رحم نہیں دکھاتے ہیں۔ سرکاری قانون کے مطابق اس طرح سڑک کو نقصان پہنچانے سے پہلے متعلقہ محکمہ مقامی انتظامیہ کے پاس سڑک کی مرمت کے لیے رقم جمع کرواتا ہے۔ نیا گھر بنانے یا مرمت کروانے کے لیے سڑک پر اینٹیں، ریت اور لوہا ذخیرہ کرنے سے بھی سڑک کی زندگی کم ہو جاتی ہے۔ کالونیوں میں بھی پانی کی مین لائن کا پائپ ایک طرف ہی ہوتا ہے، یعنی جب دوسری طرف کے باشندوں کو اپنے گھر تک پائپ لانا ہے تو اسے سڑک کھودنی ہی پڑے گی۔ ایک بار کھودی جانے والی سڑک کی مرمت تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔
سڑک پر گاڑیوں کا ناقص آپریشن بھی اس کا بڑا دشمن ہے۔ یہ دنیا میں شاید ہندوستان میں ہی دیکھنے کو ملے گا کہ سرکاری بسیں ہوں یا پھر ڈگمگاتی جیپیں، مقررہ حد سے دوگنی سواری بھرنے سے منع کرنے والے قوانین صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ محض ہیں۔ اوور لوڈڈ گاڑیاں، خراب ٹائر، دوسرے درجے کا ایندھن، یہ سب باتیں بھی حکومت کے ہموار سڑکوں کے خواب کی تعبیر میں رکاوٹ ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سڑک کی اقدار سکھائے گا کون؟ یہ اقدار سڑک کی تعمیر میں شامل محکموں کو بھی سیکھنی ہوں گی اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والے انجینئروں کو بھی۔ اقدار سے آراستہ ہونے کی ضرورت سڑک پر چلنے والوں کو بھی ہے اور ٹریفک نظام کو صحیح طریقے سے چلانے کے ذمہ دار لوگوں کو بھی۔
ویسے تو یہ معاشرہ اور حکومت دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ سڑکوں کو صاف، خوبصورت اور ہموار رکھا جائے۔لیکن حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ سخت قوانین کے بغیر یہ تہذیب آنے سے رہی۔
[email protected]