نئی دہلی (سید عینین علی حق ایس این بی):اے ایم یو میں پولیس اہلکاروں کے ذریعہ طلبا پر مظالم کی انتہا کی گئی تھی ۔ پولیس اہلکاروں نے طلبا کو صرف مارا پیٹا ہی نہیں بلکہ ان پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگایا، انہیں پاکستان جانے کا مشورہ دیا، اتنا ہی نہیں طلبا کو برہنہ کرکے بھی زد و کوب کیا گیا۔یہی وجوہات ہیں کہ اے ایم یو کے وائس چانسلر کے خلاف رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وائس چانسلر کو طلبا کا رہنما، محافظ اور والدین کی حیثیت حاصل رہتی ہے ، لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور اور انتظامیہ نے باضابطہ تحریری طور پر پولیس اہلکاروں کو ہاسٹلوں میںآنے کی اجازت دی، یہ اے ایم یو کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا، جب پولیس کو اندر آنے کی اجازت دی گئی۔ جس کے بعد پولیس نے طلبا پر مظالم کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انہیں بے رحمی سے مارا پیٹا ان پر فائرنگ کی، جس کے سبب دو بچوں کے ہاتھ خراب ہوگئے اور متعدد زخمی ہوئے۔اے ایم یو کے کچھ طلبا نے اپنی درد بھری داستان بیان کی ہے۔ وکالت کے طالب علم محمد اسجد ناصر نے کہاکہ میں لائبریری میں پڑھ رہا تھا، تبھی ہنگامہ شروع ہوچکا۔ میں گھر جانے کے لیے نکلا تھا تبھی پولیس نے مجھے بے رحمی سے پیٹا، اورتھانے میں بھی زد وکوب کیا گیا۔میں سول لائن تھانے سے ضمانت پر نکلا، اس دوران مجھے بہت زیادہ ٹارچر کیا گیا۔اے ایم یوسے گریجویشن کرنے والے محمد تعظیم خان نے کہاکہ طلبا خاموش احتجاج کررہے تھے، لیکن پولیس نے لاٹھی چار ج کردیا۔ہم لوگ بیت الخلا میں ڈر سے چھپے ہوئے تھے، لیکن پولیس نے دروازہ توڑ دیا۔ مجھے اس قدر مارا ہے کہ دائیں ہاتھ میں تین جگہ فیکچر ہے۔کمر میں بھی بہت زیادہ چوٹ ہے، سینئر ڈاکٹر نے میری انگلیوں کو دیکھ کر ریفر کرنے کے لیے کہا، لیکن پولیس نے ریفر نہیں کرنے دیا اور بغیربے ہوشی کے ٹانکے لگائے گئے۔ ڈاکٹر نے درد کی دوائی دی ، لیکن پولیس نے دوائی بھی لے لی۔ پولیس نے میرے ہاتھوں پر تقریباً 40لاٹھیاں برسائیں۔ میں احتجاج میں نہیں تھا ، لیکن پٹائی اس قدر کی گئی کہ جیسے میں کوئی مجرم ہوں۔ پولیس اسٹیشن میں ایک سپاہی نے کہا اسے اور مارنے دو اس کے بعد میڈیکل کرنا۔ میرے جموں کے ساتھی کو بھی بہت بے دردی سے مارا گیا۔ پولیس آفیسر نے گندی گندی گالیاں دیں اور کہاکہ تم پاکستان جاو¿ ،یہاں تمہارا کچھ نہیں ہے، تم لوگ آتنگ پھیلاتے ہو۔پولیس والے سبھی سے نام پوچھ رہے تھے، اور اسی کی بنیاد پر مظالم کررہے تھے۔ اور جس کی داڑھی ہوتی تھی ،اسے اسامہ کا چمچہ کہا جارہا تھا۔ اور میرے ہندو ساتھی کو وطن کا غدار کہا۔ناصر نے کہاکہ پولیس نے بلاسٹ کیا تو میرا ہاتھ خراب ہوگیا۔ ہاتھ میں تقریباً 30ٹانکے آئے ہیں، اور انگوٹھا الگ ہوگیا ہے۔ پارس محمد نے کہاکہ میرے دوست کے دونوں ہاتھ توڑ دیے گئے تھے۔اے ایم یو کے تعلق سے پروپگنڈہ بنایا گیا ہے کہ یہاں ہندو¿ں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے ، ہم سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔سینئرصحافی قربان علی نے بھی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا ایسا ایمرجنسی میں بھی نہیں ہوا تھا ، یہ ایمرجنسی کی بھی انتہا ہے۔جب بچوں کے ہاتھ تک کٹوا دیے گئے۔
وائس چانسلر اورانتظامیہ کے خلاف مستقل ہورہی ہے انگشت نمائی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS