محمد فاروق اعظمی
18ویں لوک سبھا انتخابات کے 6مرحلے مکمل ہوچکے ہیں۔ ساتواں اورآخری مرحلہ یکم جون2024کو در پیش ہے۔ اس مرحلہ میں کل 8 ریاستوں، مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 57حلقوں سے 904 امیدوار میدان میں ہیں۔ اس مرحلہ میں مغربی بنگال کے 9حلقے دمدم، باراسات، بشیرہاٹ، جے نگر، متھرا پور، ڈائمنڈ ہاربر، جادو پور، کولکاتا شمال اور کولکاتا جنوب شامل ہیں۔مغربی بنگال کے یہ وہ 9حلقے ہیں جن میں سے زیادہ تر پر مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈائمنڈر ہاربر میں مسلم ووٹوں کا تناسب38.5فیصد ہے، متھرا پور اور جے نگر میں35.6فیصد، بشیرہاٹ میں 25.82فیصدہے۔ اسی طرح دوسرے کولکاتا شمال میںمسلم ووٹ20فیصد اور جنوب میں 27.2فیصد ہے۔ جادوپور میں 21.4فیصد جب کہ دم دم میں7.2فیصدہے۔ ان 9میں سے ماسوا دمدم باقی وہ حلقے ہیں جہاں مسلم ووٹوں کی حیثیت شاہ ساز کی سی ہے۔ مسلمانوں کے ووٹوں سے ان حلقو ںمیں نام نہاد سیکولر پارٹی اپنی جیت درج کراتی آئی ہے۔ مگر ان شاہ ساز ووٹروں کی حالت فقیروں اور گداگروں سے بھی بدترہے۔
’سلام علیکم ‘ اور ’ خداحافظ ‘ کے جادوئی الفاظ کے جال میں پھنسے ان شاہ سازووٹر وں کے نزدیک آئین اور جمہوریت جیسے بڑے بڑے الفاظ بے معنی ہیں، فقط وہ اتنا جانتے ہیں کہ افطار کی دعوتوں میں حجاب پوش خاتون لیڈر انہیں سلام کرتی ہے اور جاتے ہوئے خدا حافظ کہہ جاتی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ’ سلام علیکم‘ اور ’ خداحافظ‘ کے درمیان ایوان سے واک آئوٹ کرکے طلاق ثلاثہ کے خاتمہ، الیکٹورل ریفارمس بل، تعزیرات ہند میں تبدیلی، تبدیلی مذہب قانون، شہریت ترمیمی قانون جیسے متنازع قانون کی بالواسطہ حمایت کی جاتی ہے۔ ان شاہ ساز ووٹروں کو یہ نہیں معلوم کہ کوئی حق حاصل کرنے اوراس کی آئینی اور قانونی ضمانت کیلئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اسے پارلیمنٹ ؍اسمبلی میں بل کی شکل میں پیش کیا جائے اور کثرت رائے سے منظوری کے بعد اسے قانونی درجہ دیاجائے، وہ فقط اس بات سے بہل جاتے ہیں کہ ان پسماندہ برادریوں کو گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعہ ریزرویشن کا حق دیاگیا ہے، لیکن جب عدالت ریزرویشن کے اس فریب کا پردہ چاک کرکے اسے ’غیرقانونی‘ قرار دیتی ہے تو ان کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ قانون کی موجودگی اس وقت تک لاحاصل ہے جب تک اس کا نفاذ پوری ایمانداری کے ساتھ نہ کیاجائے۔ مگر یہ شاہ سازاس پر خوش ہوجاتے ہیں کہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیاگیا ہے، بھلے ہی اس قانون کا نفاذ ہو یا نہ ہو۔اردو جاننے والوں کو سرکاری دربار میں ملازمت ملے نہ ملے وہ تو فقط اس بات سے خوش ہیں کہ دوگانہ عید کی ادائیگی کے فوراً بعد جب وہ سر اٹھاکر دیکھتے ہیں تو انہیں حجاب پوش، خاتون کا چہرہ پر نور نظرآتا ہے اور ان کے مہینے بھر کے روزوں کی محنت وصول ہوجاتی ہے۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اوقاف جائیداد کے گھوٹالوں کی سی بی آئی کی تفتیش کا مطالبہ کرکے اسی حجاب پوش خاتون نے ان کی آرزوئوں کو ہوا دی تھی اور ان کا نخل آرزو شاداب ہوگیا تھا کہ اوقاف کی آمدنی سے ان کے دن پھریں گے۔مگر اب وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اوقاف کی اربوں کی جائیداد بندر بانٹ کر لی گئی ہے۔وہ یہ بھول گئے ہیں کہ سی بی آئی تفتیش کا مطالبہ کرنے والی حجاب پوش خاتون مسند اقتدار پر براجمان ہے اور ان کے نخل آرزوپر گھوٹالوںکی تیزاب کاری ہورہی ہے، اور بہلاواان کا مقدر بنایاگیا ہے۔ان کی یادداشت سے یہ بھی گم ہوگیاہے کہ ملازمت اور نوکریاں بھی پیسوں کے بل پر دی جارہی ہیں۔ صحت اور درس و تدریس جیسے متبرک پیشوں میں آنے والے طفیلی ان کے مستقبل کا سنہرا خواب ان کی آنکھوں سے نوچ رہے ہیں۔
یہ شاہ ساز یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ تعلیم ان کا بنیادی حق ہے۔ انہیں اس پر کبھی کوئی آزردگی نہیں ہوتی ہے کہ اسی حجاب پوش خاتون کے اقتدار نے گزشتہ 10برسوں میں 7,018 پرائمری اسکول کے وجود کو نیست و نابود کردیا۔جنوبی 24پرگنہ ضلع کے جے نگر، متھرا پور، ڈائمنڈ ہاربراور جادو پور کے شاہ ساز یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف ان کے حلقوں میں 1,192 پرائمری اسکولوں کی نابودی کا سہرا بھی حجاب کے گلے کی زینت بنا ہوا ہے اور وہ خودذلت و جہالت کی انتہائی پستی میں اپنے دن گزار رہے ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے خون پسینہ کی کمائی عمال حکومت کے ذاتی خزانوں میں بند ہورہی ہے اور سائیکل پر چلنے والا کونسلر اربوںکی جائیداد کا مالک بن گیا ہے۔ پھٹے حال بیڑی پینے والے عوامی نمائندے کے پسینہ کی بو مشک و عنبر کو شرمارہی ہے۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جنہیں شاہ بنایاتھا،انہوں نے ملازمت کے نام پر ان سے کروڑوں اینٹھے اورانہیںگدا بناکر خود جیل میں داد عیش دے رہے ہیں۔
کولکاتا جیسے بین الاقوامی شہر کی مسلم بستیوں کے شاہ ساز ووٹر بھی پینے کے پانی کیلئے صبح صبح گھنٹوں قطار میں بالٹی لیے کھڑے رہنا اپنا مقدر سمجھ رہے ہیں۔ وہ اس بات پر ہی نازاں ہیں کہ ان کے محلوں میں بڑے جانور کاگوشت آسانی سے دستیاب ہورہاہے۔ ان کی یادداشت سے یہ باب گم ہوجاتا ہے کہ ان کی بستیوں کے گلی کوچوں میں کوڑے کا انبار، بارش کا جمع پانی اور کیچڑپر بھنبھناتے ہوئے مردم خور مچھر اور چوہے ان کی صحت تباہ کررہے ہیں۔ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کی عمارتوں میں منزلوں کے اضافہ پر کوئی گرفت نہیں ہوتی ہے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں یہ غیر قانونی منزلیں زمین بوس ہوکر ان کے نونہالوں کو رزق خاک بنارہی ہیں۔وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں کولکاتا میں پھیل کر رہنے کا مساوی حق حاصل ہے نہ انہیں یہ نظر آتاہے کہ بستیوں سے باہر نکل کر آشیانہ بنانے کی راہ بند کردی گئی ہے۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان سب کے باوجود دعویٰ یہ ہے کہ قرآن، بائبل، رامائن فنا ہوجائے گا مگر حجاب پوش خاتون کا اور ان کے ترقیاتی کاموں کا نام و نشان باقی رہے گا۔ (نعوذ باللّٰہ من ذالک) یہ سب دیکھ کر ہائی اسکول کے نصاب میں کبھی پڑھی گئی فیضؔ کی نظم ’ کتے ‘ یادآتی ہے۔آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانہ کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑادو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھادو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مرجانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقائوں کی ہڈیاں تک چبالیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے
ہماری دلی آرزوہی نہیں بلکہ دعا ہے کہ کوئی تو ایسا ہو جو ’شاہ سازوں‘کی سوئی ہوئی دم ہلادے تاکہ وہ فیضؔ کے ’کتے‘ سے آگے بڑھ کر اقبالؔ کے ’غازی اور پراسرار بندے‘ کے سفر پر نکل سکیں۔
[email protected]