ڈاکٹر ریحان اختر
حج ،مقدس سفر یا یاترا ایک ایسا عمل ہے جو انسانی تجربے میں گہرائی سے جڑا ہوا ہے، اس میں روحانی یا مذہبی وجوہات کی بنا پر کسی مقدس منزل کاسفر شروع کرنا شامل ہے۔ یہ جغرافیائی حدود اور ثقافتی اختلافات سے بالاتر ہے جو مذاہب کے پیروکاروں کو الٰہی تعلق، روحانی ترقی اور ثقافتی ورثے کی مشترکہ تلاش میں متحد کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے مذاہب میں حج یا مقامات مقدسہ کی زیارت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، جو ایمان کو گہرا کرنے، الٰہی نعمتوں کی تلاش اور روحانی تبدیلی کا تجربہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ زائرین کو اپنی مذہبی روایات کے ساتھ جسمانی اور جذباتی طور پر مشغول ہونے نیز برادری، عقیدت اور احترام کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ مزید برآں، زیارت گاہیں اکثر ثقافتی تبادلے، بین المذاہب مکالمے اور مذہبی ورثے کے تحفظ کے لیے اہم نکات کے طور پر کام کرتی ہیں۔ مقدس مقامات کے سفر کی تاریخ ہزار سال پر محیط ہے، جس کی جڑیں قدیم تہذیبوں اور ماقبل تاریخی دور سے ملتی ہیں۔ قدیم میسوپوٹیمیا(عراق )میں زائرین اپنے دیوتائوں کی تعظیم اور احسان حاصل کرنے کے لیے زیارت گاہوں کا سفر کرتے تھے۔ اسی طرح قدیم مصر میں کرناک اور لکسور کے مقدس زیارت گاہوں جیسے مقدس مقامات کی زیارت کی جاتی تھی۔ دنیا کے مختلف مذاہب میں مقدس مقامات کی زیارت یا حج کو انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے سب سے پہلے اسلام میں حج کی تاریخ و اہمیت کے تعلق سے لکھا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
اسلامی حج :حج، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن اور ایک روحانی سفر ہے اس کی فرضیت کے متعلق علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں کسی نے چھ ہجری ، کسی نے سات ، کسی نے آٹھ اور بعض نے نو ہجری کو اس کی فرضیت کا سال کہا ہے۔ حج دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مقدس شہر مکہ کی یہ زیارت ہر اس مسلمان کے لیے لازمی ہے جو جسمانی اور مالی طور پر اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار اس کو انجام دینے کے قابل ہو۔ یعنی ہر اس شخص پر حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو، قرآن کریم میں حج کی فرضیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا” اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو”. ( آل عمران: 97) صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرو، اور زکات ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو اگر اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہو۔
حج کی تعریف و اقسام :حج کے لغوی معنی عظیم چیزکا ارادہ کرنے کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے خاص وقت میں خاص شرائط کے ساتھ بیت اللہ کا ارادہ کرنے کو حج کہتے ہیں۔حج کی تین قسمیں ہیں ’’حج قران ، تمتع اور افراد ‘‘۔ یعنی ایک مسلمان جب حج کرتا ہے تو وہ مذکورہ تین طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ پر حج ادا کرتا ہے۔حج قران کا مطلب ہے کہ ایک ساتھ ہی حج و عمرہ کا احرام باندھا ،پہلے عمرہ کے ارکان ادا کیے، لیکن عمرے کی سعی کے بعد حلق یا قصر نہیں کیا، بلکہ طوافِ قدوم اور حج کی سعی کرنے کے بعدبدستور حالتِ احرام میں رہا، یہاں تک کہ ایامِ حج میں حج کے ارکان ادا کر کے حلق یا قصرکرایا اور احرام سے فارغ ہوا۔ حجِ قران کرنے والے پر بھی قربانی واجب ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں ایک ہی سفر میں ایک ہی احرام میں حج اور عمرہ کو جمع کرنا ہے، اس لیے اسے ’’قران‘‘ کہتے ہیں، اور جو شخص یہ حج کرے اسے ’’قارِن‘‘ کہتے ہیں۔ حج تمتع کا مطلب ہے کہ ایک ہی سفر میں پہلے عمرے کا احرام باندھا۔ طواف و سعی کے بعد حلق کر کے اس احرام سے فارغ ہوگیا۔ پھر حج کا وقت آیا تو حج کا احرام باندھا۔ کیوں کہ ایک ہی سفر میں دو عبادتیں جمع کر نے کا فائدہ اٹھا لیا، اس لیے اسے ’’حج تمتع‘‘ کہتے ہیں اور حج تمتع کرنے والے کو ’’متمتع‘‘ کہتے ہیں اور اس پر شکرانے کی قربانی واجب ہوتی ہے۔ بر صغیر ہند و پاک کے عازمین حج عموماً حج ِتمتع ہی کرتے ہیں۔حج افراد اس طریقہ حج کو کہتے ہیں جس میں صرف حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ عازم حج اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کر سکتا ہے۔ احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک عازم حج کو مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی کرنی پڑتی ہے اوراس میں قربانی واجب نہیں ہوتی۔
ایام حج ، فرائض و واجبات :حج کے کل ایام پانچ ہیں8 ذوالحجہ سے 12 ذوالحجہ تک۔ جن میں حج کے تمام فرائض و واجبات ادا کیے جاتے ہیں۔ فرائض حج میں احرام باندھنا، وقوف عرفات، طواف زیارت کرنا اور ان تینوں فرائض کو مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات میں ترتیب سے ادا کرنا ہے۔ جبکہ واجبات حج میں، مزدلفہ میں ٹھہرنا، جمرات کو کنکریاں مارنا، اگر حج قرآن یا حج تمتع کی نیت کی ہے تو قربانی کرنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، سر کے بال منڈوانا یا کترانا، طواف وداع کرنا، طواف زیارت کے سات چکر پورے کرنا۔ واجبات میں سے کوئی واجب ترک کرنے کی صورت میں دم لازم آتا ہے۔
حج کی اہمیت ، فضیلت و مقاصد
کتب احادیث میں سینکڑوں ایسی روایات صحیحہ ہیں جن سے اسلام کے اس اہم رکن کی اہمیت و فضیلت کا پتہ چلتا ہے چناچہ صحیح بخاری کتاب الحج میں ہے ” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، عرض کیا گیا: پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر عرض کیا گیا کہ پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ حج جو برائیوں سے پاک ہو۔ مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت ابو ہریرہ سے ہی ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب ہو تو وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے فرمایا، ’’حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کوئی نہیں۔حضرت ابو زہیر نبی کریم ؐسے روایت کرتے ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح، (جس کا ثواب) سات سو گنا تک ہے‘‘۔ ابن عمر فرماتے ہیں: ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مانگ ان کو عطا فرماتا ہے، ان کی دعائوں کو قبول کرتا ہے، ان کی سفارش قبول کرتا ہے اور ان کے لیے ہزار ہزار گنا تک ثواب بڑھایا جاتا ہے‘‘۔ حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: حج یعنی فرض حج کی ادائیگی میں جلدی کرو، کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے۔
روحانی تزکیہ : حج اسلام کا مقدس سفر ہے جو روحانی تزکیہ اور تجدید کے ایک گہرے سفر کے طور پر کام کرتا ہے جہاں مومنین معافی اور اللہ سے قربت حاصل کرنے کے لیے ایک تبدیلی آمیز سفر کا آغاز کرتے ہیں۔گہری علامتوں سے جڑی احتیاط سے تجویز کردہ رسومات کے ذریعے حجاج گناہ اور دنیاوی وابستگیوں کے بوجھ کو جھکاتے ہوئے عاجزی اور ایمانداری کے ساتھ اپنے باطن کا سامنا کرتے ہیں۔ مکہ میں جمع ہونے والے لاکھوں عازمین کا اجتماعی تجربہ روحانی اثرات کو بڑھاتا ہے، فرقہ وارانہ یکجہتی کے احساس کو فروغ دیتا ہے اور امت مسلمہ کے اتحاد کو تقویت دیتا ہے۔ حج کی جسمانی سختیوں اور مقدس ترین مقامات کے مقدس ماحول کے درمیان مومنین اللہ سے گہرا تعلق پیدا کرتے ہیں، حج سے پاک، تجدید، اور روحانی طور پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، نئے جذبے اور عزم کے ساتھ اپنے ایمان کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ حج کا سفر نہ صرف انفرادی حاجی کی روح کو پاک کرتا ہے بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی یاد دہانی کا بھی کام کرتا ہے۔ اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، ساتھ ہی مومنوں کے ساتھ ہمدردی، اور الٰہی رحمت کے سامنے عاجزی۔ اس تبدیلی کی زیارت کے ذریعے مسلمان اپنے ایمان کی تصدیق کرتے ہیں بھائی چارے اور بھائی چارے کے رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں، اور ہدایت اور فضل کے ابدی منبع کے قریب آتے ہیں۔
اتحاد اور مساوات: حج قومیت، نسل اور سماجی حیثیت کی حدود سے بالاتر ہوکر اتحاد اور مساوات کی بنیادی اسلامی اقدار کو مجسم کرتا ہے۔ جیسا کہ متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے لاکھوں عازمین احرام کے سادہ سفید کپڑوں میں ملبوس مکہ میں جمع ہوتے ہیں، وہ علامتی طور پر اپنے دنیاوی امتیازات کو اللہ کے سامنے برابر کے طور پر کھڑے ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ عاجزی اور اتحاد کا یہ اجتماعی مظاہرہ عالمگیر بھائی چارے اور بھائی چارے کی ایک طاقتور یاد دہانی کا کام کرتا ہے جو امت مسلمہ کی تعریف کرتا ہے۔ زندگی میں ان کے مقام سے قطع نظر، تمام حجاج ایک ہی رسومات میں شریک ہوتے ہیں، ایک ہی مقدس مقامات سے گزرتے ہیں اور ایک ہی خالق سے دعا کرتے ہیں۔ مشترکہ مقصد اور مشترکہ شناخت کا یہ احساس حاجیوں میں یکجہتی کے گہرے احساس کو فروغ دیتا ہے، کیونکہ وہ سفر کے چیلنجوں کو ایک ساتھ چلاتے ہیں، عبادت کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور زیارت کی روحانی برکات میں شریک ہوتے ہیں۔ مزید برآں، حج کی جامع نوعیت عالمی مسلم کمیونٹی کو گھیرنے کے لیے مکہ میں جسمانی اجتماع سے آگے بڑھی ہوئی ہے، کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان حج کے مناسک میں بھرپور شرکت کرتے ہیں، حجاج کے محفوظ سفر اور روحانی کامیابی کے لیے دعائیں اور نیک تمنائیں پیش کرتے ہیں۔ اس طرح، حج اتحاد کی ایک مضبوط علامت بن جاتا ہے، جو مومنوں کو ان کے باہمی ربط اور اجتماعی ذمہ داری کی یاد دلاتا ہے کہ وہ ہمدردی، انصاف اور باہمی احترام کی اقدار کو برقرار رکھیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ حج کے تجربے کے ذریعے، مسلمان مساوات اور انصاف کے اصولوں پر مبنی معاشرے کی تعمیر کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، جہاں تمام افراد اللہ کی تخلیقات کے طور پر ان کی داخلی قدر کے لیے قابل قدر اور قابل احترام ہوں۔
یاد ابراہیمی:حج اسلام کا مقدس سفر پیغمبرانہ روایات خاص طور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی اہلیہ ہاجرہ اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی ایک گہری یادگاری کے طور پر کام کرتا ہے۔ حجاج کعبہ کے ارد گرد طواف، اللہ کے لیے ابراہیم کی عقیدت اور توحید پرستانہ عبادت کے قیام کی علامت، اور صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی جیسی احتیاط سے ادا کی جانے والی رسومات میں مشغول ہوتے ہیں، جو اللہ کی عطا پر ہاجرہ کے اٹل بھروسے کی عکاسی کرتے ہیں۔ مزید برآں، منیٰ میں شیطان کو سنگسار کرنا اور اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے ابراہیم کی رضامندی کی یاد میں جانوروں کی قربانی ان آزمائشوں اور فتنوں کی یاددہانی کے طور پر کام کرتی ہے جن کا سامنا انبیاء کو خدائی اطاعت کے حصول میں کرنا پڑا۔ تاریخی واقعات کے دوبارہ اظہار کے علاوہ، حج متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو ایک مشترکہ روحانی سفر میں متحد کرتا ہے۔ حجاج قرآن کی لازوال تعلیمات اور انبیاء کی مثالی زندگیوں سے متاثر ہوکر اپنے عقیدے کے بنیادی اصولوں سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں جنہوں نے اللہ کی مرضی کے سامنے غیر متزلزل عقیدت اور سر تسلیم خم کرنے کی مثال دی۔ حج کے ذریعے مسلمان نہ صرف اپنے روحانی ورثے کا احترام کرتے ہیں بلکہ اپنے اتحاد اور باہمی احترام کے بندھنوں کو مضبوط کرتے ہیں، قومیت، نسلی اور سماجی حیثیت کے اختلافات سے بالاتر ہو کر اپنے خالق کے سامنے ایک برادری کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔
دینی ذمہ داری کی تکمیل
حج کرنا مسلمانوں کے لیے ایک بنیادی فریضہ ہے جو جسمانی اور مالی صلاحیت کی ضروری شرائط کو پورا کرتے ہیں، جو ان کے روحانی سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ ذمہ داری اسلام کی تعلیمات میں جڑی ہوئی ہے، مومن کے اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اس کے احکام کو پورا کرنے کے لیے ان کے عزم کو واضح کرتی ہے۔ مکہ کی زیارت پر جانے سے مسلمان اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک کا احترام اور بجا آوری کرتے ہوئے، اپنے عقیدے کے جامع عمل کے لیے اپنی لگن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حج کا سفر محض ایک جسمانی کوشش نہیں ہے بلکہ عقیدت کا ایک گہرا عمل ہے، جو روحانی ترقی اور اللہ کی اطاعت کو سب سے زیادہ ترجیح دینے کے لیے مومن کی رضامندی کی علامت ہے۔ اس مذہبی ذمہ داری کی تکمیل کے ذریعے مسلمان عالمی مسلم برادری کے ارکان کے طور پر اپنی شناخت اور ایمان، ہمدردی اور راستبازی پر مبنی اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔
روحانی اور اجتماعی فوائد: اپنی انفرادی و روحانی اہمیت سے ہٹ کر حج سے گہرے اجتماعی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو عالمی مسلم کمیونٹی کو تقویت دیتے ہیں۔ جیسا کہ لاکھوں حجاج مکہ میں جمع ہوتے ہیں، حج اتحاد، یکجہتی اور مشترکہ عقیدت کا ایک متحرک مظہر بن جاتا ہے۔ عبادت، دعا اور عکاسی کا اجتماعی تجربہ جغرافیائی اور ثقافتی حدود سے بالاتر ہو کر مومنین کے درمیان گہرے دوستی کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ حجاج کرام امت کے متنوع ثقافتوں سے طاقت اور تحریک حاصل کرتے ہیں، زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ساتھی مسلمانوں کی صحبت میں سکون اور مدد پاتے ہیں۔ ساتھ ہی حج کی جامع نوعیت مکہ میں جسمانی اجتماع سے بڑھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کا احاطہ کرتی ہے، جو حج کے مناسک میں بھرپور شرکت کرتے ہیں، عازمین کی روحانی کامیابی کے لیے دعائیں اور نیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔ حرم کے مقدس احاطے میں قائم ہونے والے اس فرقہ وارانہ بندھن کے ذریعے مسلمان اسلام کی طرف سے فرض کردہ ہمدردی، انصاف اور باہمی احترام کی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے باہمی ربط اور اجتماعی ذمہ داری کا اعادہ کرتے ہیں۔
حج نہ کرنے والوں پر وعید :جو شخص صاحب استطاعت ہو اور حج کی جملہ شرائط کو پورا کر رہا ہوں لیکن اس کے باوجود وہ فریضہ حج کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے لئے وعید وارد ہوئی ہے جامع ترمذی کی روایت ہے حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اسے پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
خلاصہ یہ کہ اسلام میں حج کی اہمیت بہت گہری اور کثیر الجہتی ہے جو ایمان کے بنیادی اصولوں اور تعلیمات کو سمیٹتی ہے۔ حج اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی نمائندگی کرتا ہے کیونکہ مومن مکہ کا مقدس سفر کرتے ہیں، اپنے روحانی فرائض کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یہ روحانی صفائی اور تجدید کے ایک تبدیلی کے تجربے کے طور پر کام کرتا ہے، جہاں حجاج اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور روحانی بلندی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ حج امت مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی کی ایک طاقتور علامت ہے، جو کہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مومنین کو ایمان اور عقیدت کے مشترکہ اظہار میں اکٹھا کرتا ہے۔ حج کی اجتماعی ذمہ داری مسلم کمیونٹی کی اجتماعی ذمہ داری کو واضح کرتی ہے کہ اس بنیادی عبادت تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ حج کے ساتھ منسلک روحانی انعامات اور برکات اس کی گہری اہمیت کے ثبوت کے طور پر کام کرتے ہیں، مومنوں کو جنت اور ابدی نجات کا وعدہ پیش کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر حج کو اسلام میں ایمان کے سفر، عقیدت کے مظاہرے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے روحانی افزودگی کا ایک ذریعہ کے طور پر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
[email protected]