20مئی پیرکے روز8ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کی کل 49سیٹوں پر ہونے والی پانچویں مرحلے کی پولنگ کے ساتھ ہی لوک سبھا کے کل543حلقوں میں سے 428 کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کیاجاچکا ہے۔حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے بڑے بڑے سیاسی بتوں کی تقدیر اب ای وی ایم میں قید ہے۔ فقط125حلقے ہی رہ گئے ہیں جہاں چھٹے اور ساتویں مرحلہ میں 25مئی اور یکم جون کو پولنگ ہونی ہے۔ساحل پر بیٹھے سمندر کی طغیانی کا معائنہ کرنے والے کئی تجزیہ نگاروں،سیاسی مبصرین اور مختلف طرح کے سروے جائزے میں کہا جارہا ہے کہ حکومت سازی کا جو فیصلہ ہونا تھا، وہ عوام نے پانچ مرحلوں میں کردیا ہے۔ پیش قیاسی کی جارہی ہے کہ اپوزیشن اتحاد ’ انڈیا‘ کی تیزگامی حکمراں سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اوراس کے ہم نوائوں کو بہت پیچھے چھوڑتے ہوئے حکومت سازی کے مقررہ ہدف سے بھی آگے نکل چکی ہے۔اب باقی ماندہ سیٹوں کا انتخاب محض خانہ پری ہے اور بی جے پی ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہے۔یہ اندازے، جائزے، سروے اور پیش قیاسیوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا پتہ تو 4جون کو ہی چلے گا لیکن ان پانچ مرحلوں کی انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں نے معاشرہ میں جو غلاظتیں انڈیلی ہیں، اس کی نظیر اب تک کی انتخابی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔خاص کر بھارتیہ جنتاپارٹی کی انتخابی مہم کا جارحانہ انداز اور اخلاق باختہ بیانات، بے وزن اور بے مغز دلیلوں اور خدائی دعوے نے معاشرتی و سماجی ہم آہنگی کا تانا بانا آخری درجہ میں بکھیر دیا ہے۔
پوری انتخابی مہم کے دوران حکمراں بی جے پی نے رائے دہندگان کے بنیادی مسائل مہنگائی، بے روزگاری، غربت، جہالت کے خاتمہ، تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، صحت سہولیات کی فراہمی پر بات کرنے اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں کا خاکہ پیش کرنے کے بجائے عوام کی توجہ ان سب سے ہٹانے کی مذموم کوشش کی ہے۔ ترنمول کانگریس کی سپریمو ممتابنرجی تو اپنے ترقیاتی کاموں کی طوالت اور بقا کا موازنہ الہامی کتابوں سے کررہی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جوش خطابت میںیہ کہا کہ دنیا سے قرآن، بائبل، گیتا وغیرہ اٹھ جائیں گے لیکن انہوں نے جو ترقیاتی کام کیے، وہ باقی رہیں گے اور ان کی جانب سے کیے جانے والے ترقیاتی کاموں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔کانگریس اور اپوزیشن اتحاد ’ا نڈیا‘ میں شامل دوسری پارٹیاں بھی ریزرویشن کے نام پر ’سماج کی تقسیم ‘ کو مبینہ طور پر ہوا دینے کے مسائل اٹھا رہی ہیں۔ جنوبی ہندوستان کی سیاسی جماعت ڈی ایم کے کے لیڈر اسٹالن کا ہندو مخالف بیان بھی ایسے ہی زمرے میں آتا ہے۔
لیکن حکمراں بی جے پی اس معاملے میں سب سے آگے نکل چکی ہے۔’وکاس پرش‘ اورا ن کی جماعت آدھا سچ کا اور آدھا جھوٹ کاایسا غلیظ اور بدبودار ملغوبہ عوام کو پیش کررہی ہے جس نے معاشرے میں عفونت پھیلادی ہے۔ دس سالہ دور حکومت کے ترقیاتی کاموں کا بھی ذکر بی جے پی کا کوئی لیڈر نہیں کررہاہے حتیٰ کہ وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنے دور اقتدار کی حصولیابیاں بتانے کے بجائے سابقہ حکومتوں خاص کر کانگریس کے دور اقتدار کے فیصلوں، پالیسیوں اور کارکردگی کو اپنے بیانات کی زینت بنارہے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد ’ انڈیا‘کی قوت کو کم بتانے اوراسے بدنام کرنے کیلئے دوسری سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو ہندوئوں کا دشمن اور مسلمانوں کا دوست بتایا جارہا ہے۔ بی جے پی کے ’ اسٹارکمپینر‘ وزیراعظم نریندر مودی تو ہندو-مسلم سیاست میں ایک دوسری ہی تاریخ لکھ رہے ہیں۔کبھی وہ توبہ توڑتے ہیں تو کبھی جام توڑتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں کہ وہ ہندو-مسلم سیاست جس دن کریں گے وہ دن ان کی عوامی زندگی کا آخری دن ہوگا اور اگلی ہی صبح وہ پھر سے ہندو-مسلم منافرت کی سیاست کرنے لگتے ہیں۔
بی جے پی کے پاس ووٹروں کو راغب کرنے کیلئے مسلمانوں کا خوف ایک مستقل ہتھیار تو بنا ہی ہوا ہے، اب پاک مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا نیا ایشو پہلی بار اس انتخاب میں لایاگیا ہے۔وزیرداخلہ امت شاہ مغربی بنگال تقریر کے دوران اچانک پاک مقبوضہ کشمیر پہنچ جارہے ہیں تو اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مہاراشٹر کے پال گھر سے یہ نوید سنارہے ہیں کہ اگلے 6 مہینوں میں ان کی یعنی بی جے پی کی حکومت ( اگر بنی تو)پاک مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنالے گی۔ اسی بہانے یہ لیڈران سابق وزیراعظم آنجہانی جواہر لال نہرو کو پانی پی پی کر کوس بھی رہے ہیں۔ حکمراں جماعت کی یہ نفرت انگیزی صرف تقریروں تک محدو د نہیں ہے بلکہ یہ قابل اعتراضات اشتہارات بھی دیواروں پر چسپاں کرا رہے ہیں۔
انتخابی مہم کی یہ مجموعی صورتحال کسی بھی طور پسندیدہ نہیں کہی جاسکتی ہے۔ایک ایسا معاشرہ جس میں مذہب اور عقیدہ کی بوقلمونی اس کاحسن سمجھاجاتا ہو، وہاں اگر سیاسی جماعتیں اوراس کے لیڈران اس آخری درجہ کی رزالت پر اترآئیںاور آئینی ادارے، عدلیہ اور عوام خاموش رہیں تو پھر ایسا معاشرہ عاشق کا گریبان بن جاتا ہے، جس کے پرزے عاشق خود اپنے ہاتھوں اڑاتا ہے۔
[email protected]