پنکج چترویدی
گزشتہ دنوں انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے سیٹیلائٹ امیجز جاری کرکے بتایا کہ کس طرح ہمالیہ کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اس کی وجہ سے کئی برفانی جھیلوں کی سائز دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھتے ہی یاد آیا کہ کس طرح 6 فروری، 2021 کی صبح گلیشیئر کا ایک حصہ ٹوٹ کر تیزی سے نیچے پھسل کر رشی گنگا ندی میں جا گرا تھا۔ برف کے ایک بڑے تودے کے گرنے سے ندی کے پانی کی سطح اچانک بڑھ گئی اور رینی گاؤں کے قریب چل رہا چھوٹا سا پاور پلانٹ دیکھتے ہی دیکھتے تباہ ہو گیا تھا۔ اس کا اثر وہاں پانچ کلومیٹر کے دائرے میں بہنے والی دھولی گنگا پر پڑا اور وہاں زیر تعمیر این ٹی پی سی کا پورا پروجیکٹ تباہ ہو گیا تھا۔ راستے کے کئی پل ٹوٹ گئے اور کئی گاوؤں کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ اس واقعے نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اپنے آبی حیات کہلانے والے گلیشیئروںکے بارے میں ہمیں مسلسل مطالعہ اور باقاعدہ جائزہ لیتے رہنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں پر برف کے وہ بڑے بڑے تودے جو کم از کم تین فٹ دبیز اور دو کلومیٹر تک لمبے ہوتے ہیں، وہ ہِم نَد،ہمانی یا گلیشیئر کہلاتے ہیں۔ یہ اپنے ہی وزن کی وجہ سے نیچے کی طرف سرکتے رہتے ہیں۔ جس طرح ندی میں پانی ڈھلان کی طرف بہتا ہے، اسی طرح گلیشیئر بھی نیچے کی طرف کھسکتے ہیں۔ ان کی رفتار بہت سست ہوتی ہے، چوبیس گھنٹوں میں بمشکل چار یا پانچ انچ کھسک پاتے ہیں۔ زمین پر جہاں برف کے پگھلنے کے مقابلے میں برف باری زیادہ ہوتی ہے، وہیں گلیشیئر بنتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہمالیہ کے علاقے میں تقریباً 18065 گلیشیئرز ہیں اور ان میں سے کوئی بھی تین کلومیٹر سے کم لمبا نہیں ہے۔ ہمالیہ کے علاقے کے گلیشیئرز کے بارے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہاں سال میں 300 دن، روزانہ کم از کم 8 گھنٹے تک سورج کی تیز دھوپ رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تھوڑی بہت گرمی میں یہ گلیشیئرز پگھلنے سے رہے۔
اسرو کی تازہ رپورٹ ملک کے لیے بہت خوفناک ہے، کیونکہ ہمارے ملک کی لائف لائن کہلانے والی گنگا-جمنا جیسی ندیاں تو یہاں سے نکلتی ہی ہیں، زمین کے درجۂ حرارت کو کنٹرول کرنے اور مانسون کو پانی سے لبریز بنانے میں بھی برف کے ان تودوں کا کردار ہوتا ہے۔ اسرو کی طرف سے جاری کردہ سیٹیلائٹ امیجز میں ہماچل پردیش میں 4068 میٹر کی بلندی پر واقع گیپانگ گھاٹ برفانی جھیل میں1989 سے2022 کے درمیان 36.49 ہیکٹیئر سے 101.30 ہیکٹیئر کی 178 فیصد توسیع دکھائی گئی ہے۔ یعنی ہر سال جھیل کے حجم میں تقریباً 1.96 ہیکٹیئر کا اضافہ ہوا ہے۔ اسرو نے کہا کہ ہمالیہ کی 2431 جھیلوں میں سے 676 برفانی جھیلیں 1984 سے 2016-17 کے درمیان 10 ہیکٹیئر سے زیادہ پھیل چکی ہیں۔ اسرو نے کہا کہ 676 جھیلوں میں سے 601 جھیلیں دوگنا سے زیادہ بڑھی ہیں جبکہ 10 جھیلیں ڈیڑھ سے دو گنا اور 65 جھیلیں ڈیڑھ گنا بڑی ہو گئی ہیں۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ پھیلی ہوئی 676 جھیلوں میں سے 130 ہندوستان کی حدود میں ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ برف کے تودے پگھلنے سے بننے والی 14 جھیلیں 4000 سے 5000 میٹر کی بلندی پر ہیں جبکہ 296 جھیلیں 5000 میٹر سے بھی زیادہ کی بلندی پر ہیں۔ یاد رہے کہ شمال مغربی سکم میں 17,000 فٹ کی بلندی پر واقع جنوبی لہوناک گلیشیئر جھیل گزشتہ سال اکتوبر میں پھٹ گئی تھی۔ اس سے آئے سیلاب کی وجہ سے میں 40 افراد ہلاک اور 76 لاپتہ ہوگئے تھے۔ ہماچل بھی کچھ سال پہلے پراچھو جھیل کے پھٹنے سے اسی طرح کے سانحے کا سامنا کرچکا ہے۔
ہمالیہ کو اتنے بڑے گلیشیئرز اور برف پوش چوٹیوں کی وجہ سے تیسرے قطب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ علاقہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثرہ حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ تقریباً 200 سال کے دوران دنیا میں جیسے جیسے کارخانے وجود میں آئے، گلیشیئرز کے پگھلنے کی قدرتی رفتار بھی متاثر ہوئی ہے۔ جب گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھلتے ہیں تو اونچے پہاڑوں کی وادیوں میں بہت سی نئی جھیلیں بن جاتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ پہلے سے موجود جھیلوں کی توسیع بھی ہوتی ہے۔ ایسی جھیلوں کو برفانی جھیلیں کہتے ہیں۔ یہ جھیلیں ندیوں کے پانی کا وسیلہ ہیں لیکن ان کا پھٹ جانا یعنی گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (جی ایل او ایف) ایک بڑی قدرتی آفت بھی ہوتی ہے۔ ایسے حادثات اکثر اس وقت ہوتے ہیں جب برف سے بنے ڈیم یعنی مورائین کمزور ہو جاتے ہیں۔
ہمالیہ برصغیر کے لیے پانی کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور اگر نیتی آیوگ کے محکمۂ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جانب سے 2018 میں تیار کردہ پانی کے تحفظ سے متعلق رپورٹ پر یقین کریں توہمالیہ سے نکلنے والی 60 فیصد ندیوں میں دن بہ دن پانی کی مقدار کم ہو رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ یا زمین کا گرم ہونا، کاربن کے اخراج، موسمیاتی تبدیلیوں اور ٹھنڈا کرنے کا کام کر رہے گلیشیئرز پر آرہے شدید بحران اور اس کے نتیجے میں پوری زمین کے وجود کو لاحق خطرات کے بارے میں باتیں اب صرف چند ماحولیاتی ماہرین تک محدود نہیں رہ گئی ہیں۔ یہ بات پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے کہ اگر ہمالیہ کے گلیشیئر اسی طرح پگھلتے رہے تو ندیوں میں پانی بڑھ جائے گا اور اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف کئی شہر اور دیہات زیر آب آ جائیں گے وہیں دوسری طرف زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کو کنٹرول کرنے والی چھتری کے تباہ ہو جانے سے بھیانک خشک سالی، سیلاب اور گرمی پڑے گی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں انسانی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو گا۔
ہمالیہ کے پہاڑوں کے اتراکھنڈ والے حصے میں چھوٹے بڑے تقریباً 1439 گلیشیئر ہیں۔ ریاست کے کل رقبے کا 20 فیصد حصہ ان برفانی چٹانوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ان گلیشیئروں سے نکلنے والا پانی پورے ملک کی زراعت، پینے، صنعت، بجلی، سیاحت وغیرہ کے لیے حیات بخش اور واحد ذریعہ ہے۔ ظاہر ہے کہ گلیشیئر کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑچھاڑ پورے ملک کے لیے ماحولیاتی، سماجی، اقتصادی اور تزویراتی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
قریباً ایک دہائی قبل موسمیاتی تبدیلی پر بین الاقوامی پینل (آئی پی سی سی) نے دعویٰ کیا تھا کہ زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ 2035 تک ہمالیہ کے گلیشیئروںکا نام و نشان مٹ جائے۔ مثال کے طور پر کشمیر کے کولہائی گلیشیئر کے بارے میں ڈیٹا دیا گیا کہ یہ ایک سال میں 20 میٹر سکڑ گیا جبکہ ایک دیگر چھوٹا گلیشیئر غائب ہو گیا۔
سنجیدگی سے سوچیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہمالیائی پہاڑوں کے ان علاقوں میں ہی گلیشیئرز زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں انسانی مداخلت زیادہ رہی ہے۔ واضح رہے کہ 1953 کے بعد سے اب تک ایوریسٹ کی چوٹی پر 3000 سیزیادہ کوہ پیما جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ دوسرے اونچے ہمالیائی پہاڑوں پر پہنچنے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ یہ کوہ پیما اپنے پیچھے بہت زیادہ کچرا چھوڑ کر آتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے گلیشیئر سہم- سمٹ رہے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ گلوبل نہیں بلکہ لوکل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ جب تک گلیشیئر کے اوپری اور نچلے حصوں کے درجۂ حرارت میں بہت زیادہ فرق ہوگا تو اس کے بڑے حصے میں ٹوٹنے، پھسلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کئی بار برف کے دو بڑے تودے آپس میں ٹکرا کر بھی ٹوٹ جاتے ہیں، تاہم یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ گلیشیئر کے قریب تعمیر کیے جانے والے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے ہونے والے دھماکوں اور توڑ پھوڑ سے پرسکون اور سنجیدہ رہنے والے زندہ برف کے پہاڑ ناخوش ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہمالین جیولوجی کے ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دریائے گنگا کا اہم ماخذ گنگوتری برف کا تودہ بھی اوسطاً 10 میٹر کی بہ نسبت 22 میٹر سالانہ کی رفتار سے پیچھے کھسکا ہے۔ ندیوں کے خشک ہونے کی بنیادی وجہ گلیشیئر کے علاقے میں قدرتی شکل میں ہورہی چھیڑچھاڑہے۔
[email protected]