اسرائیل کے مقابلہ مسلم دنیا اس قدر بے بس کیوں ہے؟ : ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

موجودہ مسلم دنیا کی کیفیت کو اگر مختصر طور پر بیان کرنا ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک کمزور اور غیر متحد دنیا ہے۔ اس دنیا میں اتحاد اور اشتراک عمل کا عنصر مکمل طور پر مفقود ہے۔ اس مسلم دنیا کے اراکین خواہ عرب ہوں یا عجم سب کی حالت کم و بیش یکساں ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی وحدت کا وجود صرف کتابوں میں ہے جبکہ حقیقت کی زمین پر صرف اپنے محدود ذاتی یا خاندانی مفادات کی حفاظت کرنے والے ارباب اقتدار یہاں نظر آتے ہیں۔ عرب ملکوں میں انتشار اور عدم یکجہتی کا پہلو عجم کے مقابلہ کہیں زیادہ نمایاں ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضہ تو یہ تھا کہ قدرتی ذخائر سے مالا مال عرب ملکوں کے رہنما آپس میں سر جوڑ کر بیٹھتے اور امت کی ناگفتہ بہ حالت کا مداوا تلاش کرتے تاکہ اسلامی عظمت کے سایہ میں مسلمان عزت و وقار کی زندگی بسر کریں اور دنیا کی مظلوم قوموں کے لئے ماؤی و ملجا بھی فراہم کریں۔

اس کے برعکس ان رہنماؤں نے اپنے اپنے خاندانی ورثہ کے طور ملک کا نظم و انتظام سنبھال رکھا ہے اور آپس میں کوئی حقیقی اتحاد قائم کرنے سے قاصر ہیں۔انہوں نے کبھی بھی امت یا دین کے بڑے مقاصد کو پیش نظر رکھ کوئی کام نہیں کیا۔ اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر حکمرانی کرنے کو ہی اپنے لئے معراج تصور کرلیا ہے۔ ان ان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی اتنی بھی حیثیت نہیں ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملوں میں آزادی کے ساتھ کوئی فیصلہ لے سکیں۔ کوئی بھی اہم فیصلہ لینے کے لئے وہ امریکہ بہادر کے چشم و ابرو کی طرف لجاجت اور ذلت کے ساتھ ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے ہیں۔ اگر اس کی جانب سے مثبت اشارہ مل بھی گیا تو اتنا قدم ہی بڑھا پاتے ہیں جتنے کی اجازت امریکہ بہادر دیتا ہے۔ یقینا ان عرب ملکوں کو ایسی بے بسی پر عار کا احساس تو ضرور ہوتا ہوگا کیونکہ عرب ایک غیور قوم ہے جس کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ اس قوم نے اپنی بہادری، جرأت گفتار و کردار اور لوم لائم سے بے پرواہ ہوکر اسلامی شعور اور غیرت کے ساتھ بلند مقاصد کی تکمیل کیلئے صدیوں تک کام کیا ہے اور دنیا کی تہذیب و ثقافت کے اکلوتے امین کے طور پر چھائے رہے ہیں۔ اس قوم میں آج بھی وہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ کبھی صحراؤں کو روندتی تھی تو کبھی سمندروں کو اپنی فتوحات کیلئے استعمال کرتی تھی۔ افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اتنی غیور اور دین پر قربان ہونے والی قوم کو ان کے حکمرانوں نے اس درجہ تک پہنچا دیا ہے کہ ان کے منہ سے آواز تک نہیں نکل رہی ہے۔ ان کے نوجوانوں میں اب اتنی غیرت اور احساس بھی باقی نہیں ہے کہ وہ امریکی و یوروپی یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس کی طرح اپنی حکومتوں پر دباؤ بنائیں اور انہیں مجبور کریں کہ وہ فلسطینیوں کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔ دقت یہ ہے کہ یہ عرب ممالک یہ رول ادا کیسے کریں گے؟ یہ تو آپس میں ہی باہم دست و گریباں رہتے ہیں اور نا اہل بچوں کی طرح اپنے ہی بھائیوں کے خلاف اپنی شکایتیں لے کر امریکہ بہادر کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں۔ صرف شکایت ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ امریکہ کو اپنے ملک کی ثروت میں سے کئی سو ارب ڈالر ہتھیار خریدنے کے نام پر بطور رشوت پیش کردیتے ہیں۔ یہ سب کچھ ابھی چند برس قبل جی سی سی کے ممبر ممالک اور مصر نے قطر کے ساتھ کیا تھا۔ جب انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوا تو دوبارہ تعلقات بحال کئے گئے۔ ظاہر ہے کہ قطر کے خلاف اس اقدام کا واحد مقصد یہ تھا کہ اس کی ترقی کے راستے کو روکا جائے اور عالمی سطح پر بڑھتی اس کی ساکھ کو بٹہ لگایا جائے۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں یہ چھوٹا سا ملک اپنے قد سے اتنا بڑا نہ بن جائے کہ باقی پڑوسی ممالک ان کے سامنے بونے اور کوتاہ قد نظر آنے لگیں۔ حالانکہ عقل مندی کا تقاضہ یہ تھا کہ قطر کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر یہ ممالک بھی خود اپنا قد بڑھاتے اور عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کے دائرہ کو پھیلاتے۔

لیکن چونکہ ان میں مطلوب علمی صلاحیت اور امت کے مسائل کے تئیں سنجیدگی کا فقدان عام ہے اس لئے یہ کبھی ان خطوط پر سوچ نہیں پاتے۔ سعودی عرب کے ماہر اقتصادیات اور عالمی سطح کے ادیب عبد الرحمن منیف جو پانچ جلدوں میں لکھی گئی اپنی ناول ’مدن الملح‘ یا نمک کے شہر کیلئے معروف ہیں۔ انہوں نے عرب دنیا کی کمزوری اور پالیسی امور میں مغرب پر انحصار کے تعلق سے کئی کتابیں اور ناولیں لکھی ہیں۔ وہ ان چھوٹے چھوٹے عرب ممالک کو ’ٹوائلیٹ اسٹیٹس‘ کہتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ ممالک اپنی دولت کو خود اپنے عوام پر تو خرچ کرنے میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں لیکن جب کبھی مغربی دنیا میں کوئی مسئلہ پیدا ہو تو سب سے پہلے یہی اپنی دولت ان پر نچھاور کرنے کیلئے اتاؤلے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ عرب کے ان ’ٹوائلیٹ اسٹیٹس‘کو چاہئے کہ وہ اپنا ایک فیڈریشن قائم کریں یعنی فیڈرل اسٹیٹ بنائیں اور یہ ’ٹوائلیٹ اسٹیٹس‘اس کا حصہ بنیں تاکہ ان میں قوت اور تاثیر پیدا ہو۔ انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ عربوں کا اقتصادی ترقی کا اپنا ماڈل ہو جو ان کے ماحول اور ضرورتوں کو دھیان میں رکھ کر تیار کیا جائے۔

مغرب کے اقتصادی ترقی کے ماڈل کو سامنے رکھ کر کام نہ کیا جائے۔ اگر ایسا کریں گے تو ان کا انحصار مغربی ملکوں بالخصوص امریکہ پر کم ہوجائے گا اور وہ پالیسی سازی کے معاملوں میں بھی آزاد ہوں گے، لیکن کسی عرب ملک نے ان کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ عبد الرحمن منیف جن کا انتقال 2004 میں ہوا وہ سعودی عرب کے رہنے والے تھے، لیکن جب انہوں نے ’مدن الملح‘لکھی تو سعودی عرب نے ان سے ان کی شہریت چھین لی۔ ان پر الزام عائد ہوا کہ وہ اپنی ناول میں آل سعود کو نشانہ بنائے ہیں۔ وہ اپنی پوری زندگی کبھی شام تو کبھی عمان میں تو کبھی فرانس میں گزارنے پر مجبور ہوئے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ انہوں نے 1948 میں فلسطین کا نکبہ بہت قریب سے دیکھا تھا اور اس کی پوری روداد بھی اپنی سرگزشت میں نقل کی ہے اور عربوں نے اس موقع پر جو غلطیاں بلکہ مسئلۂ فلسطین کو کمزور اور بے دست و پا بنانے میں جو کردار نبھایا تھا اس کی تفصیل درج کی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ عربوں کے آپسی انتشار اور غیر سنجیدہ ڈھنگ سے مسئلۂ فلسطین کو ہینڈل کرنے کی وجہ سے یہ تباہی عربوں اور فلسطینیوں کے سر پر آئی تھی۔ اگر عرب حکمرانوں نے اتنی طویل مدت میں عبدالرحمن منیف جیسی علمی شخصیتوں کے مشوروں پر عمل کیا ہوتا اور اپنی تعلیم و اقتصاد سے لے کر سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اپنی کمزوریوں کو دور کیا ہوتا تو آج ان کی یہ بے بسی نہیں ہوتی کہ اسرائیل ان کو بالکل خاطر میں نہیں لاتا اور اہل غزہ کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا۔

جو حال عربوں کا ہے وہی حال ترکی کے صدر اردگان کا ہے۔ آج سے ایک دہائی قبل تک خاص طور سے 2010 سے 2018 تک کا جو زمانہ گزرا ہے اس میں اردگان کے تیور بالکل الگ ہوتے تھے۔ وہ فلسطین مسئلہ پر کسی طرح سمجھوتہ کرتے نظر نہیں آتے تھے، لیکن اب ان کی پالیسی میں جھجھک اور احتیاط کا پہلو نمایاں ہے۔ گزشتہ ہفتہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو منجمد تو کر دیا ہے لیکن تاجروں کی جماعت کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جس نرم اور محتاط لہجہ کا استعمال اسرائیل کے لئے کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ اسرائیل اور امریکہ سے ترکی کے تعلقات خراب ہوکر پہلے کی طرح ایسے نقطہ تک پہنچ جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ لیکن کیا ترکی کے عوام کا بھی یہی موقف ہے؟ حالیہ مقامی انتخابات میں اردگان کی پارٹی کو جو شکست ہوئی ہے اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کے عوام اردگان کی پالیسی کو بالکل مسترد کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ترکی پوری قوت کے ساتھ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہنے کا عزم دکھائے۔ خلاصہ کلام کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم دنیا کی یہ کمزوریاں اور پالیسیوں کی سطح پر ان کا کنفیوژن اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ او آئی سی سے لے کر جی سی سی اور عرب لیگ تک تمام تنظیمیں بچوں کے گھروندوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس حماس اور دیگر فلسطینی تحریکاتِ مزاحمت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر مقصد جائز اور حوصلہ بلند ہو تو اسرائیل اور اس کے مغربی حلیفوں کو شکست دینا اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ ضرورت تو بس جرأت گفتار و کردار کی ہے۔ جس دن مسلم دنیا اس مرحلہ کو طے کرلے گی اس دن ان کی ذلت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ شاید ابھی وہ منزل نہیں آئی ہے۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS