عبدالماجد نظامی
وزارت عظمیٰ کا عہدہ ہمارے ملک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کرسی پر متمکن ہونے والے شخص سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی، علاقہ اور مذہبی و لسانی ہر قسم کی محدودیت سے خود کو بلند رکھے گا اور دستور نے جو بے پناہ تنفیذی صلاحیتیں اس کے حوالہ کی ہیں، ان کی لاج کو وہ بچائے رکھے گا اور اپنی پالیسیوں کو ہر قسم کے تعصبات سے پاک رکھ کر تمام شہریوں کے مفادات کا تحفظ پوری ایمانداری کے ساتھ کرے گا۔ لیکن ایسا کہنا شاید وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں درست نہیں ہوگا۔ جب سے ان کے ہاتھ میں اس ملک کی زمام قیادت آئی ہے تب سے لگاتار وہ اپنی دستوری ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو اپنی نفرت کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے زہریلے بیانات اور دانستہ طور پر ان کے ذریعہ بنائی گئی مسلم مخالف پالیسیوں سے شہ پاکر آر ایس ایس اور بی جے پی سے وابستہ چھوٹی بڑی جماعتیں گزشتہ دس برسوں سے مسلمانوں کو اس ملک میں شدت کے ساتھ نشانہ بناتی رہی ہیں۔ کبھی گائے کے نام پر مسلمانوں کی لنچنگ کی گئی تو کبھی بی جے پی کے زیر حکومت ریاستوں میں پولیس فورس کا بیجا استعمال کرکے مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کرکے زمیں بوس کر دیا گیا اور ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچا گیا کہ جن خاندانوں اور لوگوں کو بے گھر کیا جا رہا ہے، ان کا ٹھکانہ کہاں ہوگا اور معصوم مسلم بچے اور عورتیں سرد موسم، بارش یا چلچلاتی دھوپ میں کہاں پناہ لیں گے۔ یا پھر یوں کہا جائے کہ جب آر ایس ایس اور بی جے پی کا بنیادی ایجنڈا ہی یہ بن چکا ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کے سر سے صرف چھت ہی نہیں بلکہ ان سے اس ملک میں بسنے اور زندگی گزارنے کا حق تک چھین لیا جائے جیسا کہ سی اے اے اور این آر سی کے بہانہ اس کی کوشش کی گئی تھی تو صرف اسی آر ایس ایس کی آغوش میں پل کر پروان چڑھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ وسعت قلبی و فکری کا ثبوت دیں گے اور اپنی دستوری ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نبھائیں گے، ایک بے سود امید ہی کہلائے گی۔ لیکن ان تمام تر سلبی پہلوؤں کے باوجود اس ملک کا مسلمان مایوس نہیں ہوا ہے کیونکہ اس کی ایمانی تربیت اور فکری جڑوں میں یاس و قنوطیت کے بجائے رجاء و امید کی مٹی پڑی ہوئی ہے۔ اس ملک کا مسلمان نریندر مودی سے بس اتنی سی امید رکھتا ہے کہ وہ اب شاکھاؤں کی فکر سے باہر آئیں اور اس بات کا مظاہرہ کریں کہ وہ اب آر ایس ایس کے تنگ نظریاتی اصولوں کے بجائے ایک وسیع و عمیق اور انسانی اصولوں پر مشتمل آئین ہند کی رہنمائی میں کام کرنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں۔ عام انتخابات 2024 کے لیے عوام سے ووٹ مانگتے وقت بانسواڑہ، راجستھان میں وزیراعظم نے ملک کی مسلم اقلیت کے خلاف جو نفرتی بیان دیا ہے، ایسے بیانات سے وہ معزز ترین عہدہ داغ دار ہوتا ہے جس پر انہیں عوام نے اچھی امید میں بٹھایا تھا۔ نریندر مودی نے جس ڈھنگ سے بانسواڑہ میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی ہے، اس سے اس بات کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے کہ اس ملک کی مسلم اقلیت کا وجود سخت خطرہ میں ہے اور ان کی علمی، ثقافتی و تہذیبی اور اقتصادی و سماجی راہیں مسدود کرنے کی صریح کوشش ہورہی ہے۔ کہنے کو تو نریندر مودی نے اپنی سیاسی حریف کانگریس کو اپنے حملہ اور تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اس بیان کا اصل ہدف اس ملک کی مسلم اقلیت بنائی گئی ہے جس کے لیے آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ذرا نریندر مودی کے الفاظ پر غور کیجیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پہلے جب ان کی(کانگریس پارٹی کی) سرکار تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی دولت پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ اس کا مطلب،یہ دولت اکٹھی کرکے کس کو بانٹیں گے؟ جن کے زیادہ بچے ہیں ان کو بانٹیں گے، گھس پیٹھیوں کو بانٹیں گے۔‘‘ اس کے بعد اپنے حامیوں کو مخاطب کرکے نریندر پوچھتے ہیں کہ ’’کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسہ گھس پیٹھیوں کو دیا جائے گا؟ آپ کو منظور ہے یہ؟‘‘ قارئین اگر نریندر مودی کے ہر ہر لفظ پر غور کریں گے اور ان کی نفرت آمیز نظریاتی تربیت کی جڑوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو اندازہ ہوجائے گا کہ وہ اس مختصر سے بیان میں آر ایس ایس کے نظریہ کو اور مسلمانوں کے تئیں ان کی کھلی عداوت کو کیسے پوری وضاحت سے پیش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی صاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ مسلمان اس ملک پر بوجھ ہیں اور ہندوؤں کی دولت ان پر خرچ کی جا رہی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مسلمان یہاں کے شہری نہیں ہیں بلکہ گھس پیٹھئے ہیں اور اسی لیے ان کا اس ملک کی دولت و ثروت پر کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جس ڈھنگ سے وہ اپنے حامیوں کو اپنی باتوں سے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے بالکل صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف حملہ کے لیے انہیں تیار کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نہایت ہی خطرناک بات ہے اور اس سے مسلمانوں کے مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گا کیونکہ ملک میں موجود اوباشوں کا وہ ٹولہ جو مسلم دشمنی میں انتہا کو پہنچ چکا ہے، وہ وزیر اعظم کے بیان سے یہ سمجھے گا کہ اسے مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن بنانے کا لائسنس مل گیا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کی ثروت کا تعلق ہے، یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اس ملک میں کون سا طبقہ کتنی دولت رکھتا ہے، اس کا کوئی واضح ڈاٹا تو موجود نہیں ہے لیکن2020میں یہ جاننے کے لیے ایک اسٹڈی کی گئی تھی کہ کس طبقہ کے پاس کتنا سونا ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق اس ملک کے او بی سی کے پاس 39.1 فیصد، ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں کے پاس 31. 3 فیصد جبکہ مسلمانوں کے پاس محض 9.2 فیصد ہے۔ صرف اس ملک کے ایس ٹی طبقہ کے پاس مسلمانوں سے 3.4فیصد کم سونا ہے۔ منموہن سنگھ کے جس بیان کو توڑ مروڑ کر نریندر مودی نے پیش کیا ہے، اس میں بھی کہیں اس کا ذکر نہیں ہے کہ اس ملک کی دولت کو سب سے پہلے مسلمانوں پر خرچ کیا جائے گا۔ اس میں تمام پسماندہ طبقوں کی ترقی کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی جس میں مسلمان بھی شامل تھے۔ یہ بات منموہن سنگھ نے اس لیے کہی تھی کیونکہ دیگر پسماندہ طبقوں کی طرح مسلمان بھی ترقی کی راہ میں پیچھے رہ گیا ہے اور اس ملک کی ثروت کی تقسیم انصاف کے ساتھ ان طبقوں بشمول مسلمانوں میں نہیں ہوئی ہے۔ زمینی حقیقت سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی اقتصادی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی حالت بہت خستہ ہے۔ اس کو بہتر بنانے کے بجائے نریندر مودی مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی کرتے نظر آ رہے ہیں اور ملک کے کمزور ترین طبقہ کی حالت مزید ابتر بنانے کے درپے نظر آتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ اس قسم کے بیانات کے خلاف سخت کارروائی کرے اور ملک و سماج میں نفرت کو پھیلانے کی کوششوں میں شریک و ساجھی نہ بنے۔ نریندر مودی کو بھی چاہیے کہ اگر واقعی وہ اس ملک کی ترقی کے معاملہ میں سنجیدہ ہیں تو وہ مسلم مخالف پالیسیوں سے باز آجائیں کیونکہ مسلمانوں کو کمزور رکھ کر یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ آخرکار ملک کی15فیصد سے زیادہ آبادی کو حاشیہ پر ڈال کر کون سا ملک ترقی کا خواب پورا کر سکتا ہے؟
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]